اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

طلاق كى عدت ميں گھر سے باہر نكلنے كا حكم

08-11-2013

سوال 136998

ميں عدت ميں ہوں اور عليحدگى ميں جا كر قرآن مجيد حفظ كرنا چاہتى ہوں كيا ميرے ليے گھر سے باہر جانا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ويب سائٹ پر كيے گئے اس سوال سے ہم يہ سمجھيں ہيں كہ يہاں عدت سے مراد طلاق كى عدت ہے، اس ليے ہم سوال كرنے والى بہن سے عرض كريں گے كہ طلاق كى عدت كى دو حالتيں ہونگى:

اول:

طلاق رجعى كى عدت.

دوم:

طلاق بائن كى عدت.

پہلى حالت:

عورت طلاق رجعى كى عدت گزار رہى ہو تو اس كے ليے اپنے خاوند كى اجازت سے مسجد اور مدرسہ قرآن حفظ كرنے كے ليے جانا جائز ہے؛ كيونكہ رجعى طلاق والى عورت اس كى بيوى ہے، اسے وہى حق حاصل ہے جو بيويوں كو ہوتا ہے اور اس پر خاوند كے وہى حقوق ہيں جو بيويوں پر ہوتے ہيں.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ:

" جب مرد اپنى بيوى كو ايك يا دو طلاقيں دے تو وہ خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے باہر نہيں نكلےگى "

مصنف ابن ابو شيبۃ ( 4 / 142 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" راجح قول يہى ہے كہ طلاق رجعى والى عورت اس بيوى كى طرح ہى ہے جسے طلاق نہيں ہوئى، يعنى اس كے ليے اپنے پڑوسيوں اور مسجد يا رشتہ داروں يا تقرير اور درس سننے كے ليے جانا جائز ہے، يہ اس عورت كى طرح نہيں جس كا خاوند فوت ہو جائے اور وہ عدت ميں ہو.

رہا درج ذيل فرمان بارى تعالى:

تم انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو اور نہ ہى وہ خود نكليں .

اس سے اخراج مفارقت ہے، يعنى وہ گھر نہ چھوڑے اور نكل كر كہيں دوسرےگھر ميں جا كر رہنے لگے... " انتہى

ماخوذ از: نور على الدرب.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر رجعى طلاق ہو تو وہ اس كى بيوى ہے، اس كے خاوند كو اس كے اخراجات برداشت كرنا ہونگے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير باہر نہيں جائيگى " انتہى

ديكھيں: روضۃ الطالبين ( 8 / 416 ).

دوسرى حالت:

وہ طلاق بائن ہو چاہے بينونت كبرى مثلا تينوں طلاقيں مكمل ہو چكى ہوں، يا پھر بينونت صغرى جيسا كہ خلع كر ليا ہو يا پھر كسى عيب كى بنا پر نكاح فسخ ہو تو اس كے ليے گھر سے نكلنا جائز ہے؛ چاہے اجازت كے بغير ہى جائے كيونكہ اس حالت ميں زوجيت ختم ہو جاتى ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

" جب عورت كو طلاق بتہ دے دى جائے تو وہ مسجد آ سكتى ہے، اسے حق ہے، اور عدت ختم ہونے تك رات اپنے گھر ميں ہى بسر كريگى "

ديكھيں: المدونۃ ( 2 / 42 ).

اور مغنى المحتاج ميں درج ہے:

" خلع يا تين طلاق سے بائن ہونے والى عورت كو نہ تو نفقہ ملےگا اور نہ ہى لباس كيونكہ زوجيت ختم ہو چكى ہے اس ليے يہ بيوہ كے مشابہ ہوئى " انتہى

ديكھيں: مغنى المحتاج ( 5 / 174 ).

اور حاشيۃ البيجرمى ميں درج ہے:

" رہى وہ جسے نفقہ ملےگا مثلا طلاق رجعى والى اور حاملہ بائن عورت تو يہ دونوں بيوى كى طرح خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے باہر نہيں جائينگى، كيونكہ اس كے اخراجات خاوند كے ذمہ ہيں جى ہاں دوسرى كے ليے تحصيل نفقہ كے بغير نكلنا جائز ہے مثلا روئى خريدنے اور سوت فروخت كرنے كے ليے سبكى نے يہى ذكر كيا ہے " انہى

ديكھيں: حاشيۃ البيجرمى ( 4 / 90 ).

حاصل يہ ہوا كہ اگر عورت طلاق رجعى كى عدت ميں ہو تو اس كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير باہر جانا جائز نہيں، ليكن اگر طلاق بائن كى عدت گزار رہى ہو تو اسے ضرورت كى خاطر بغير اجازت بھى باہر جانا جائز ہے؛ كيونكہ زوجيت ختم ہو چكى ہے.

واللہ اعلم.

عدت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔