"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں ایسی کوئی دعا ہے جو کہ وبائی امراض اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مفید ہو، مثلاً: (Swine Flu) سوائن فلو وغیرہ میں۔
الحمد للہ.
اول:
سنت مطہرہ میں ایسی بہت سی احادیث ہیں جو مسلمان کو مسنون ایسے اذکار اور دعاؤں پر پابندی کی ترغیب دلاتی ہیں جو انسان کو تکالیف، نقصان اور ہر قسم کی منفی سرگرمی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، ان دعاؤں کے عموم میں مختلف قسم کی تمام بیماریاں اور وبائی امراض شامل ہیں، ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام مخلوقات کے ہر قسم کے شر سے تحفظ اور عافیت پانے کے ساتھ ساتھ پر امن رہنے کے لیے انسان اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ صبح اور شام تین تین بار اللہ تعالی سے مانگےاور کہے: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ [ترجمہ: میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اس کی تمام تر مخلوقات کے شر سے] اس لیے کہ ایسی روایات ثابت ہیں جن میں ان الفاظ کو عافیت کا سبب قرار دیا گیا ہے، اسی طرح صبح اور شام یہ الفاظ بھی پڑھے: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے]؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ جو شخص بھی صبح کے وقت تین بار ان الفاظ کو پڑھے تو اس کو شام تک کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچاتی، اور جو شخص شام کے وقت پڑھ لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی۔
تو قرآن و سنت سے ثابت یہ تمام اذکار ہر قسم کی برائی، شر اور تکلیف سے تحفظ کا باعث ہیں۔
اس لیے ہر مومن مرد اور عورت کو ان اذکار کی مقررہ اوقات میں پابندی کرنی چاہیے، نیز انہیں پڑھتے ہوئے اللہ تعالی پر مکمل اعتماد ہو اور قلبی طور پر مطمئن بھی ہو کہ اللہ تعالی ہی ہر چیز کو قائم رکھے ہوئے ہے، وہی ہر چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے، اور ہر چیز پر قادر بھی ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی پروردگار ہے، اسی کے ہاتھ میں نفع و نقصان کا کامل اختیار ہے، اور وہی ہر چیز کا مالک ہے۔"
" فتاوى الشیخ ابن باز " ( 3 / 454 ، 455 )
الشیخ ابو الحسن مبارکپوری رحمہ اللہ اس دعا کی شرح میں کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ یعنی مطلب یہ ہے کہ: دینی امور میں آزمائشوں اور دنیاوی سختیوں سے سلامتی اور تحفظ کا طلب گار ہوں۔ اس کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر قسم کی بیماری اور وبا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تیسرا معنی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ: اللہ تعالی ان بیماریوں میں مبتلا نہ کرے، اور اگر کر بھی دے تو اس پر صبر کرنے اور اللہ کے فیصلوں پر سرِ تسلیم خم کرنے کی توفیق دے۔ لفظ " الْعَافِيَةَ " عربی زبان میں فعل " عَافَى" کا مصدر ہےیا اسم ہے، اس کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب القاموس کہتے ہیں کہ: "عافیت: اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے تحفظ کو کہتے ہیں، چنانچہ عربی جملہ: عَافَاهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الْمَكْرُوْهِ عَفَاءً وَمُعَافَاةً وَعَافِيَةً اس وقت کہا جاتا ہے جب اللہ تعالی کسی بندے کو بیماریوں، بلاؤں اور تکالیف سے بچا لے، اس کا معنی عربی لفظ: "أَعْفَاهُ" جیسا ہے۔"
نیز اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ کا مطلب ہے: یا اللہ میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور ان سے در گزر کا مطالبہ کرتا ہوں۔
وَالْعَافِيَةَ یعنی عیوب سے پاکی۔
" فِي دِينِي وَدُنْيَايَ "یعنی دینی اور دنیاوی تمام امور میں " ختم شد
" مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح " ( 8 / 139 )
مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حدیث میں مذکور: وَتَحَوُّلِ کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کسی دوسری چیز سے جدا ہو جائے ؛ گویا کہ یہاں پر ہمیشہ کی عافیت اللہ تعالی سے مانگی گئی ہے، اور ہمیشہ کی عافیت کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی بیماری اور تکلیفیں نہ پہنچیں۔" ختم شد
" فيض القدير " ( 2 / 140 )
سنن ابو داود کے شارح علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں وَتَحَوُّلِ العَافِيَة کا مطلب یہ ہے کہ: صحت بیماری میں بدل جائے اور دولت غربت سے بدل جائے۔" ختم شد
" عون المعبود شرح سنن أبي داود " ( 4 / 283 )
اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر بیماریوں سے پناہ نہیں مانگی؛ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ بیماریوں کی تکلیف کم ہوتی ہے لیکن اس بیماری پر صبر کی بدولت ملنے والا اجر بہت زیادہ ہوتا ہے، اور وہ بیماریاں دائمی بھی نہیں ہوتیں بلکہ عارضی ہوتی ہیں، جیسے کہ بخار، سر درد، اور آنکھ درد وغیرہ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائمی بیماریوں سے پناہ مانگی ہے؛ کیونکہ انسان دائمی بیماری سے خود بھی تنگ آ جاتا ہے، اور دوست احباب بھی متنفر سے ہو جاتے ہیں، لوگ بات چیت اور علاج معالجے کے لیے بھی نہیں آتےاور انسان خود اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے۔"
علامہ طیبی کی گفتگو عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ابو داود کی شرح "عون المعبود" میں ذکر کی ہے۔
واللہ اعلم