اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

مسجد میں گم شدہ چیز کی تلاش کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔

21-11-2024

سوال 145198

حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی کو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے کہے: اللہ تمہیں تمہاری چیز نہ لوٹائے؛ کیونکہ مساجد اس کام کے لیے نہیں بنائی جاتیں) اس حدیث کی روشنی میں اگر کسی شخص کی کوئی قیمتی چیز مسجد میں ہی گم ہو جائے اور وہ اس کا اعلان نہ کرے بلکہ امام یا نگران کو اس کی اطلاع کرے تو کیا یہ بھی منع ہو گا؟ اور کیا حدیث میں وارد ممانعت صرف گمشدہ چیزوں کے بارے میں ہے یا کسی بھی اعلان کے متعلق ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسجدوں میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی گم شدہ چیز کا تعارف پیش کرنا جائز ہے؛ کیونکہ مساجد اس کام کے لیے نہیں بنائی جاتیں، مساجد صرف ذکرِ الہی کے لیے بنائی جاتی ہیں، چنانچہ صحیح مسلم: (568) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی کو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے کہے: اللہ تمہیں تمہاری چیز نہ لوٹائے؛ یقیناً مساجد اس لیے نہیں بنائی جاتیں)

اسی طرح صحیح مسلم: (569) کی ہی ایک اور روایت میں سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کیا کہ: کون ہے جو میرے سرخ اونٹ کو تلاش کر کے مجھے بلائے گا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہیں تمہاری گمشدہ چیز نہ ملے؛ یقیناً مساجد بنانے کے مقاصد وہی ہیں جن کے لیے انہیں بنایا جاتا ہے۔)

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو فرمایا: (تمہیں تمہاری گمشدہ چیز نہ ملے) اور دوسروں کو حکم دیا ہے کہ ایسی بات کسی بھی گمشدہ چیز کا اعلان کرنے والے کو کہی جائے۔ تو یہ اس کے لیے شرعی مخالفت اور نافرمانی پر سزا ہے۔ لہذا گمشدہ چیز کا اعلان سننے والے کو چاہیے کہ وہ کہے: لَا وَجَدْت فَإِنَّ الْمَسَاجِد لَمْ تُبْنَ لِهَذَا  یعنی: “تمہیں تمہاری گمشدہ چیز نہ ملے، مساجد اس کام کے لیے نہیں بنائی جاتیں” یا یہ کہے کہ: { لَا وَجَدْت إِنَّمَا بُنِيَتْ الْمَسَاجِد لِمَا بُنِيَتْ لَهُ} ” تمہیں تمہاری گمشدہ چیز نہ ملے؛ یقیناً مساجد بنانے کے مقاصد وہی ہیں جن کے لیے انہیں بنایا جاتا ہے۔” یہ دونوں جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھائے ہیں۔” ختم شد

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی نے مساجد کے بارے میں بتلایا کہ یہ اللہ تعالی کے گھر ہیں، اور ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے مقام و مرتبے کو اعلی بنایا جائے، مساجد میں اللہ کا نام لیا جائے، اور صبح و شام ان میں اللہ کی پاکیزگی بیان کی جائے۔ تو یہ مساجد بنانے کے مقاصد ہیں، لہذا ان امور سے ہٹ کر کوئی بھی کام ہو اسے مساجد سے دور ہی رکھا جائے۔” ختم شد
“الاستذكار” (2 / 368)

امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن بیہقی: (20763) میں روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے ساتھ ہی ایک کھلی جگہ تیار کروائی اور اسے “بطیحاء” کا نام دیا، آپ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: “جس نے گپ شپ لگانی ہو، یا شعر و شاعری کرنی ہو، یا بلند آواز سے بولنا ہو تو اس کھلی جگہ میں آ جایا کرے۔”
مزید کے لیے دیکھیں: “الاستذكار” (2/368)

اگر کسی نے گمشدہ چیز کا اعلان کرنا ہو تو مسجد سے باہر نکل کر اعلان کرے، اور اگر کسی کاغذ پر لکھ کر مسجد کی بیرونی دیوار پر چسپاں کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اور اگر کسی کی کوئی چیز مسجد میں گم ہوئی ہو اور وہ امام مسجد، یا موذن یا خادم کو بتلائے کہ جس کو ملے وہ مجھ سے رابطہ کر لے وغیرہ اگر ان کے درمیان باہمی گفتگو ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مسجدیں گمشدہ چیزوں کا اعلان اور خرید و فروخت کے لیے نہیں بنائی جاتیں، مسجدیں اللہ تعالی کی عبادت، نماز، ذکر اور علمی مجالس جیسی اطاعتِ الہی والے کاموں کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

تاہم کسی کاغذ پر لکھ کر مسجد کی بیرونی دیوار پر لگا دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح مسجد کے بیرونی دروازوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے، لیکن مسجد کے اندر لٹکانا مناسب نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہ بھی گفتگو کرنے کے زمرے میں آتا ہے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے لوگ کاغذ پڑھنے میں مشغول بھی ہو سکتے ہیں۔

تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسجد کے اندر کاغذ پر لکھ کر اعلان لگانا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مسجد کے اندر گمشدہ چیز کا اعلان لٹکانا بھی ممنوعہ عمل میں شامل ہے۔ تاہم مسجد کی بیرونی دیوار کے باہر یا مین گیٹ پر اعلان لٹکایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔” مختصراً ختم شد
“فتاوى نور على الدرب” (2/709)

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مساجد کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی انہیں اللہ تعالی کی جانب منسوب کیا، پھر اللہ تعالی نے مساجد کا مقام عالی شان بنانے کی اجازت دی ہے، ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کی خاص حرمت، عظمت اور احترام ہے، اور ان کے خصوصی احکامات بھی ہیں۔

چنانچہ مساجد کے احکامات میں یہ بھی شامل ہے کہ مساجد میں خرید و فروخت نہ کی جائے چاہے معمولی ہو یا زیادہ ۔ اسی طرح گمشدہ چیزوں کا اعلان بھی کہ ایک آدمی مسجد میں آ کر کہے: میری فلاں چیز گم ہو گئی ہے، مثلاً: میرا بٹوا گم ہو گیا ہے۔ تو یہ اعلان کرنا حرام ہے، جائز نہیں ہے، اگرچہ آپ کو غالب گمان ہو کہ بٹوا مسجد میں ہی چوری ہوا ہے۔ اب آپ یہ مت کہیں کہ مجھے میرا بٹوا کیسے ملے گا؟ اس کے لیے آپ مسجد کے دروازے کی بیرونی جانب کھڑے ہو جائیں اور وہاں پر اعلان کریں۔

الغرض ، بھائیو! مساجد کا احترام نہایت ضروری ہے۔” مختصراً ختم شد
“شرح رياض الصالحين” (ص 2014)

فتاوی دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“گم شدہ چیز کا اعلان کرنے کے لیے مسجد کے دروازے سے باہر کسی مخصوص جگہ پر اعلان کی جگہ بنا دی جائے تا کہ لوگوں کو اعلان کا پتہ لگ سکے۔” ختم شد
فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (5/275)

دوم:

حدیث میں مذکور ممانعت کسی بھی قسم کے اعلان اور گمشدگی کے اعلان کے بارے میں عام ہے، ہاں البتہ کسی ایسے کام کا اعلان ہو سکتا ہے جو کسی نیکی کی رہنمائی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“مساجد، یا مساجد سے ملحقہ برآمدہ یا صحن کو یا مسجد سے منسلک لیکن جائے نماز سے الگ جگہ وغیرہ کو بھی مارکیٹنگ اور کمرشل اعلانات کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، چاہے یہ اعلان اسکولوں ، فیکٹریوں، یا کسی بھی قسم کے اداروں کے لیے ہو؛ کیونکہ مساجد نماز، ذکر، دین و تعلیم و تدریس، تلاوت قرآن وغیرہ پر مشتمل اللہ تعالی کی عبادات اور دینی امور کے لیے بنائی جاتی ہیں۔

چنانچہ مذکورہ امور کو مساجد سے دور رکھنا اور مساجد کا احترام کرنا ضروری ہے، اسی طرح خصوصی اہتمام کیا جائے کہ کوئی بھی ایسی سرگرمی نہ ہو جس سے اللہ تعالی کی عبادت اور آخرت کی یاد میں کوئی کمی پیدا ہو۔” مختصراً ختم شد
دائمی فتوی کمیٹی: (5 / 276-277)

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:

کسی مسجد میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ہر جمعرات کو روزہ رکھنے والوں کے لیے مسجد میں افطاری کا انتظام ہو گا، تو اس اعلان کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
“اس اعلان میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس اعلان کے ذریعے لوگوں کو خیر کی دعوت دی گئی ہے، اور اس اعلان کا مقصد کسی بھی صورت میں خرید و فروخت نہیں ہے۔ اور ایسا اعلان کرنا حرام ہے جس میں خرید و فروخت ہو، یا کسی چیز کو کرائے پر دینا یا لینا شامل ہو؛ کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لیے مساجد تعمیر نہیں کی جاتیں، جبکہ کسی نیکی کی دعوت دینا، یا کھانا کھلانا، یا صدقہ خیرات کرنے کا اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔” ختم شد

آپ رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:

مسجد میں اعلانات لٹکانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً: حج یا عمرہ ادائیگی کے لیے گروپ کی روانگی کا اعلان کرنا، یا مسجد میں منعقد کیے جانے والے خطابات اور علمی دروس کا اعلان وغیرہ؟

تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
“اگر تو کوئی اعلان کسی نیکی کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نیکی پر عمل کے ذریعے انسان قرب الہی حاصل کرتا ہے، اور مساجد اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔

لیکن اگر کوئی اعلان دنیاوی امور کے لیے ہو تو یہ جائز نہیں ہے، البتہ مسجد کی بیرونی دیوار کے باہر ایسا اعلان لٹکایا جا سکتا ہے، لہذا حج گروپ لے جانا دنیاوی امور میں سے ہے، اس لیے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا اعلان مسجد کے اندر ہو۔

جبکہ علمی دروس اور خطابات کا عمل خالصتا دینی کام ہے، تو اس کا اعلان اگر مسجد کے اندر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے۔” مختصراً ختم شد

ماخوذ از: “شرح منظومة القواعد الفقهية” (ص/52)

واللہ اعلم

مساجد کے احکام گری پڑی چیزیں اور لا وارث بچے
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔