"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
فطرانہ واجب ہونے کا وقت رمضان کے آخری دن سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، جبکہ احادیث مبارکہ میں عید سے ایک ، دو دن قبل ادا کرنے کی اجازت بھی ملتی ہے۔
مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (37636) کا جواب ملاحظہ کریں۔
احناف فطرانہ کو زکاۃ پر قیاس کرتے ہوئے وقت سے پہلے ادا کرنے کو جائز کہتے ہیں۔
چنانچہ سرخسی رحمہ اللہ "المبسوط" (3/110) میں کہتے ہیں کہ:
"ہمارے [احناف کے]ہاں صحیح موقف یہی ہے کہ فطرانہ کی ایک یا دو سالہ پیشگی ادائیگی جائز ہے"انتہی
جبکہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ فطرانے کی ادائیگی وقت سے پہلے ادا کرنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔
چنانچہ فطرانہ اور زکاۃ کے درمیان دو طرح سے فرق ہے:
1- فطرانہ رمضان کے آخری دن سورج غروب ہونے کے باعث واجب ہوتا ہے، لیکن زکاۃ نصاب کے برابر مال کی ملکیت ثابت ہونے کی وجہ سے واجب ہوتی ہے، چنانچہ کسی چیز کو اسکے سبب سے مقدم کرنا جائز نہیں ہے، اسی لئے اگر کسی شخص نے نصاب کے برابر مال کا مالک بننے سے پہلے ہی زکاۃ ادا کردی، تو وقت سے پہلے ادا کی گئی زکاۃ کفایت نہیں کریگی۔
لہذا شیررازی اپنی کتاب "المہذب" میں کہتے ہیں کہ:
"ماہِ رمضان سے پہلے فطرانہ کی ادائیگی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح [فطرانے کا موجب بننے والے ]دو اسباب [یعنی: روزہ ، اور رمضان کے آخری دن میں غروب آفتاب]سے فطرانے کو مقدم کیا جائے گا، تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے زکاۃ کا نصاب اور نصاب پر ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی زکاۃ ادا کردی جائے"انتہی
مزید کیلئے دیکھیں: "منظومة أصول الفقه وقواعده " از: ابن عثیمین رحمہ اللہ (صـ 143)
2- فطرانہ ادا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ عید کے دن فقراء کو غنی کیا جائے، اور یہ حکمت فطرانہ وقت سے پہلے ادا کرنے کی وجہ سے ختم ہوجائے گی، لیکن زکاۃ میں ایسا معاملہ نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی کا مقصد مطلق طور پر غریب لوگوں کی مدد ہے، اس لئے زکاۃ کو کسی وقت کیساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا۔
3- ان دونوں میں فرق کی تیسری توجیہ بھی ہوسکتی ہےکہ: فطرانہ کی مقدار بہت تھوڑی ہوتی ہے، جس کی وقت سے پہلے ادائیگی پر فقراء کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا، جبکہ زکاۃ میں معاملہ الٹ ہے[یعنی: زکاۃ وقت سے پہلے دینے پر فقراء کا زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے]۔
واللہ اعلم .