"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
سائل نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ ضعیف ہے، صحیح ثابت نہیں ہے۔
اس روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنے فوت شدگان کی خوبیاں ذکر کیا کرو، اور ان کی برائیوں سے زبان روک لو) اس حدیث کو ابو داود: (4900) اور ترمذی: (1019) نے روایت کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے، نیز امام ترمذی کہتے ہیں کہ: "یہ غریب حدیث ہے اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا کہ: اس حدیث کا راوی : عمران بن انس مکی منکر الحدیث ہے۔" نیز اس مسئلے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایک روایت منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فوت شدگان کو برا بھلا مت کہو؛ کیونکہ وہ اپنے کیے ہوئے اعمال تک پہنچ گئے ہیں۔) اس حدیث کو امام بخاری : (1329) نے روایت کیا ہے۔
دوم:
دشمنان اسلام، سنگین نوعیت کے بدعات کے مرتکب افراد، اور اعلانیہ گناہ کرنے والے لوگوں کی موت پر خوشی شرعی عمل ہے، یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں، حجر و شجر اور جانوروں پر نعمت ہے، بلکہ اہل سنت تو ایسے لوگوں کے بیماریوں میں مبتلا ہونے ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر بھی خوش ہوتے ہیں، اسی طرح ان پر مصیبتیں ٹوٹیں تب بھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
ہماری اس بات پر بہت سے دلائل موجود ہیں جن میں سے چند دلائل درج ذیل نصوص ، آثار، اور واقعات ہیں:
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"اگر یہ کہا جائے کہ فوت شدگان کے بارے میں برے کلمات کا استعمال کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؛ حالانکہ صحیح حدیث زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فوت شدگان کو برا بھلا نہیں کہنا بلکہ ان کا ذکر صرف اچھے الفاظ میں ہی کرنا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوت شدگان کو برے الفاظ سے یاد کرنے کی ممانعت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو منافق، کافر، اعلانیہ گناہ یا بدعت کرنے والے نہیں ہوتے؛ کیونکہ ان لوگوں کی برائیوں کو دوسروں کو بچانے کے لیے ذکر کرنا حرام نہیں ہے ، اس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ لوگ ان کے راستے پر چلنے سے خبردار بھی رہیں گے۔" ختم شد
" عمدة القار شرح صحيح البخاری " ( 8 / 195 )
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حدیث کا معنی ہے کہ: فوت ہونے والے لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو خود راحت پاتے ہیں، اور دوسری وہ قسم جن کے جانے سے لوگوں کو راحت ملتی ہے۔ فاجر آدمی سے لوگوں کے راحت پانے کا مطلب یہ ہے کہ: لوگ فاجروں کی اذیت رسانی سے محفوظ ہو جاتے ہیں، فاجروں کی اذیت رسانی کئی طرح سے ہوتی ہے، مثلاً: لوگوں پر ظلم کرنا، گناہوں کا ارتکاب کرنا، اگر لوگ انہیں گناہوں سے روکیں تو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، یا ممکن ہے کہ انہیں روکنے کی بنا پر نقصان اٹھانا پڑے، اور اگر لوگ انہیں روکتے نہیں تو گناہ گار بنتے ہیں۔
جانور اس طرح سے راحت پاتے ہیں کہ ظالم لوگ انہیں مارتے ہیں، ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادتے ہیں، اور بسا اوقات انہیں بھوکا بھی رکھتے ہیں، جانوروں کو ایذا رسانی کے مزید طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔
دھرتی اور درختوں کو داودی رحمہ اللہ کے مطابق راحت اس طرح ملتی ہے کہ فاجروں کی موجودگی میں بارشیں نہیں برستیں، جبکہ مالکی فقیہ الباجی کہتے ہیں کہ: فاجر لوگ انہیں پانی لگنے سے رکاوٹ ڈالتے ہیں ، انہیں پانی نہیں لگاتے۔" ختم شد
" شرح مسلم " ( 7 / 20 ، 21 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جہاد کیا، آپ نے خارجیوں سے قتال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کیں، پھر ان کے قتل ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا، نیز جب خارجیوں کے سر غنّے ذو الثدیہ کو مقتولین میں دیکھا تو اللہ تعالی کے لیے سجدہ شکر بھی کیا۔
لیکن جنگ جمل اور صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوشی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ آپ کو انتہائی تکلیف ہوئی اور جو کچھ بھی ہوا اس پر پشیمان بھی ہوئے، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بھی ذکر نہیں کی بلکہ یہاں تک کہا کہ میں نے اپنے اجتہاد سے ان کے خلاف تلوار اٹھائی۔"
" مجموع الفتاوى " ( 20 / 395 )
أفَلَتْ نُجُومُ سُعودِك ابنَ دُوَادِ ... وَبَدتْ نُحُوسُكَ في جميع إيَادِ
ابن داود تمہاری بلندی کا تارہ اب غروب ہو گیا ہے، بلکہ لوگوں میں ہر طرف تمہاری نحوست عیاں ہو چکی ہے۔
فَرِحَتْ بمَصْرَعِكَ البَرِيَّةُ كُلُّها ... مَن كَان منها مُوقناً بمعَادِ
تمہارے بستر مرگ پر جانے سے آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی ساری مخلوقات کو خوشی ہوئی۔
لم يَبْقَ منكَ سِوَى خَيَالٍ لامِعٍ ... فوق الفِرَاشِ مُمَهَّداً بوِسادِ
اب بستر مرگ پر بھی تیری صرف خام خیالی ہی باقی ہے، جس میں حرارت یا برودت کچھ بھی باقی نہیں ہے۔
وَخَبتْ لَدَى الخلفاء نارٌ بَعْدَمَا ... قد كنت تَقْدحُهَا بكُلِّ زِنادِ
حکمرانوں کے ہاں اب تمہاری بھڑکائی ہوئی آگ بجھ جائے گی جسے تو ہر موقع پر بھڑکاتا رہتا تھا۔
" تاريخ بغداد " از خطیب بغدادی ( 4 / 155 )
مندرجہ بالا دلائل اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں جن سے اسلام دشمن اور اسلام مخالف افراد ، زندیق، سخت گیر بدعتی ، فاجروں اور بدمعاشوں کی موت پر خوشی کے اظہار کا جواز ملتا ہے، بلکہ اہل سنت تو ایسے لوگوں پر بیماری، جیل، ملک بدری اور شکست خوردی کی صورت میں ان پر اترنے والی مصیبتوں اور تکالیف پر بھی خوش ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم