"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
بيوہ عورت كے ليے دوران عدت خوشبو كا استعمال چاہے وہ دھونى كى صورت ميں ہى ہو جائز نہيں؛ ليكن جب وہ حيض سے پاك ہو تو اسے حيض والى جگہ خوشبو ركھنے كى اجازت ہے تا كہ گندى بو اور اثرات زائل ہو سكے، اس كى دليل بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ہے:
ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ہميں خاوند كے علاوہ كسى بھى ميت پر تين دن سے زيادہ كا سوگ منانے سے منع كيا جاتا تھا، خاوند كا سوگ چار ماہ دس دن كى اجازت تھى، نہ تو ہم سرمہ ڈاليں اور نہ ہى خوشبو لگائيں اور نہ ہى عصب نامى يمنى كپڑے كے علاوہ رنگے ہوئے كپڑے پہننے كى اجازت تھى، ہميں رخصت دى گئى كہ حيض سے پاك ہو كر غسل كے وقت حيض كى جگہ ميں قسط اور اظفار كى خوشبو استعمال كر سكتى ہے، اور ہميں جنازے كے ساتھ جانے سے بھى منع كيا جاتا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4923 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2740 ).
كست يا قسط اور اظفار يہ دھونى والى خوشبو كى ايك قسم ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں رقمطراز ہيں:
" امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: قسط اور ظفر سے خوشبو مقصود نہيں، بلكہ عدت والى بيوہ عورت كو اس كى اجازت دى گئى ہے كہ جب وہ حيض سےغسل كرے تو اس كى بدبو زائل كرنے كے ليے اسے استعمال كر سكتى ہے.
مھلب رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كے ليے دھونى والى خوشبو كى اجازت اس ليے دى گئى ہے تا كہ وہ اپنے آپ سے گندے خون كى بدبو زائل كر لے كيونكہ وہ نماز كے ليے تيار ہو رہى ہے " انتہى
ليكن جب دھونى والى خوشبو گھر ميں لگائى جائيگى تو وہ اس كى لباس ميں بھى لگےگى اس ليے وہ نہى و ممانعت ميں پڑ جائيگى، اس ليے اس سے اجتناب كرنا ہى بہتر ہے، ليكن اگر كوئى دوسرا گھر كے كسى ايسى جگہ دھونى والى خوشبو لگائے جہاں يہ عدت والى عورت نہ ہو.
شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
عدت والى عورت كے ليے دھونى استعمال كيے بغير اسے سونگھنا اور شيمپو كے ساتھ غسل كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
عدت والى عورت كے ليے عود كے تيل كى دھونى استعمال كرنا صحيح نہيں، اور اسى طرح ايسى چيز سے غسل كرنا جس ميں اچھى خوشبو پائى جائے مثلا شيمپو، ليكن اس كے ليے بيرى اور ٹائد استعمال كرنا جائز ہے، اور وہ زيتون وغيرہ كا تيل استعمال كر سكتى ہے جس ميں خوشبو نہيں ہوتى " انتہى
ماخوذ از: شيخ ابن جبرين كى ويب سائٹ.
واللہ اعلم .