اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

ميت پر رونے اور بين كرنے ميں فرق

08-10-2011

سوال 163276

كيا آپ فوت شدہ پر رونے اور بين كرنے ميں فرق كى وضاحت كر سكتے ہيں، اور كيا آہ و بكاء اور چيخ و پكار اور آواز نكال كر غم و پريشانى اور آنسو بہا كر غم ظاہر كرنا بھى بين كرنے ميں شامل ہوتا ہے ؟
يہ معاملہ بہت حيران كن ہے اور ميں اس سلسلہ ميں وضاحت كى طلبگار ہوں كيونكہ بين كرنا گناہ كا باعث ہے، آپ اس سلسلہ ميں وضاحت كريں، اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم كے ہاں بين كا دراومدار بين كرنے والے كى آواز اور كلام پر ہے، اور يہاں كلام سے مراد يہ ہے كہ وہ مرنے والے كے بارہ ميں بات كرے اور اس كے اوصاف اور محاسن اپنے بين ميں بيان كر رہا ہو، يا پھر عورتيں بين كرتے وقت جو لمبى لمبى آواز نكالتى ہيں وہ مراد ہے، يا پھر چيخ و پكار كرنا جو كہ بين كے وقت معروف ہے.

كچھ فقھاء كا كہنا ہے كہ يہ رونے كے ساتھ شامل ہوتى ہے، ليكن كچھ فقھاء نے رونے كى شرط نہيں لگائى بلكہ مندرجہ بالا بين پر ہى معلق كيا ہے.

صحيح حديث ميں وارد ہے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ بيمار تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن ابى وقاص اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم كے ساتھ ان كى عيادت كرنے گئے، جب وہاں پہنچے تو انہيں اپنے گھر والوں كے اندر پايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا فوت ہو گئے ہيں ؟

تو عرض كيا گيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نہيں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رونے لگے، جب لوگوں نے رسول كريم صلى اللہ وسلم كو روتے ديكھا تو وہ بھى رونے لگے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم سن نہيں رہے؛ بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالى آنكھ كے آنسو نكلنے اور دل غمگين ہونے سے عذاب نہيں ديتا بلكہ اس سے عذاب ديتا ہے يا پھر رحم كرتا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زبان كے طرف اشارہ كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1304 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 924 ).

اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك بيٹى نے پيغام بھيجا كہ وہ ان كے گھر آئيں اور بتايا كہ ان كا بچہ موت و حيات كى كشمكش ميں ہے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پيغام لانےوالے سے كہا: جاؤ اسے جا كر بتاؤ كہ: كہ جو اللہ نے واپس لے ليا وہ بھى اسى كا تھا اور جو اس نے ديا وہ بھى اسى كا ہے، اور اللہ كے ہاں ہر ايك كا ايك وقت مقرر ہے، اسے كہو كہ وہ صبر كرے اور اجروثواب كى نيت ركھے "

تو وہ پيغام لانے والا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى آپ كى بيٹى نے قسم دى ہے كہ آپ ضرور تشريف لائيں چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہاں سے اٹھے تو آپ كے ساتھ سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہم بھى تھے، اور ميں بھى ان كے ساتھ ہو ليا.

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہاں پہنچے تو آپ كو بچہ ديا گيا آپ نے اٹھايا تو اس كى جان نكل رہى تھى گويا كہ جان كسى مشكيزے ميں اٹكى ہو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى آنكھوں سے آنسو بہنے لگے.

سعد رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ كيا ؟

آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ رحمدلى اور نرمى و رحمت ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں كے دلوں ميں ركھى ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى بھى اپنے رحمدل بندوں پر ہى رحم كرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1284 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 923 ).

امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح ميں رقمطراز ہيں:

" اس كا معنى يہ ہوا كہ سعد رضى اللہ تعالى عنہ كا خيال تھا كہ رونے كى سارى اقسام حرام ہيں، حتى كہ آنكھوں سے آنسو جارى ہونا بى حرام ہيں، اور انہوں نے خيال كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھول گئے ہيں، چنانچہ سعد رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ياد دلايا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سعد رضى اللہ كو بتايا كہ صرف رونا اور آنكھ سے آنسو جارى ہونا نہ تو مكروہ ہے اور نہ ہى حرام، بلكہ يہ تو رحمت و فضيلت ہے.

بلكہ حرام يہ ہے كہ بلند آواز كے ساتھ آہ و بكاء كى جائے اور بين كيے جائيں " انتہى

واللہ اعلم .

آداب
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔