"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں
پہلی بات:
سوال نمبر(763) میں ایسے اعمال کا تذکرہ گزر چکا ہے جن سےمیت کو فائدہ پہنچنا ممکن ہے۔
ان اعمال کو باری تعالی سے حسنِ ظن رکھتے ہوئے اور اس سے قبول کی امید کرتے ہوئے کئے جاسکتے ہیں، چنانچہ کسی کیلئے قبولیت کا حتمی حکم لگانا ممکن نہیں۔
دوسری بات:
اگر آپکا بھائی -اللہ انہیں اپنی رحمت میں جگہ دے-نے رمضان المبارک میں کسی عذر مثلاً: سفر، مرض یا کسی اور شرعی عذر کی بنا پر روزہ نہیں رکھا اور وفات تک یہ عذر قائم رہنے کی بنا پر اسکی قضائی بھی نہیں دے سکا تو اس پر کچھ نہیں ہے اور نہ ہی انکی جانب سے ولی روزہ رکھے گا، ہاں اگر ایسا مرض لاحق تھا کہ شفا کی امید ہی نہیں تھی، تو اسوقت انکی حالت اس بوڑھے کی طرح ہے جو روزہ نہیں رکھ سکتا ، تو اس صورت میں اسکی طرف سے کھانا کھلایا جائے گا؛ اس لئے کہ بوڑھے پر روزوں کی جگہ کھانا کھلانا واجب ہوتا ہے۔
اور اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر رمضان کے روزے نہیں رکھےاور استطاعت کے باوجود قضاء نہیں دی، تو اسکی طرف سے ولی روزے رکھے گا۔
اور اگر رمضان میں سستی اور کاہلی کی بنا پر روزے نہیں رکھےتوایسے شخص کی طرف سے قضائی دینا درست نہیں۔
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر (81030) اور (174581)
تیسری بات :
سبز باغوں میں رہتے ہوئے اسکی بہن کا خواب میں دیکھنا، اچھا خواب ہے، -ان شاء اللہ- امید ہے یہ خواب بابرکت ہوگا، کہ اللہ تعالی نے اپنے ہاں اسےاچھا مقام دیا ہو؛ لیکن اس پر قطعی فیصلہ کرنا ناممکن ہے، اس لئے کہ خوابوں کی تعبیر کرنا ایک بہت بڑا کام ہے، اس میں کسی بات پر پختہ حکم لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اس کا معاملہ اللہ تعالی کے فضل و کرم پر منحصر ہے، اسکے لئے اللہ سے امید کی جاسکتی ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنائے کھڑے تھے، تو آپ نے فرمایا: (لوگو!نبوت کی پیشین گوئی میں سے مؤمن کو آنیوالے اچھے خواب ہی باقی ہیں جنہیں ایک مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھا دئیے جاتے ہیں)
اس سے پہلے سوال نمبر (731) میں گزر چکا ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں شرعی نصوص موجود ہیں انکے علاوہ اہل سنت والجماعت کسی معین شخص کیلئے جنتی یا جہنمی ہونے کا قطعی حکم نہیں لگاتے۔
اور جہاں تک اپنی موت کے قریب آنے کے احساس کا معاملہ ہے، تو اسکا مجموعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر ایسے حالات جہاں پر کچھ علامات بھی موجود ہوں، اگرچہ کوئی بھی اپنی موت کے بارے میں معین وقت نہیں بتا سکتا، اور نہ ہی جائے وفات جان سکتا ہے، لہذا اس قسم کی باتوں سے کوئی خاص حکم نہیں لگتا، اور نہ ہی اس سے کسی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالی اسکے مقام ومرتبہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے، لیکن ہم یہ قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا کہ: کسی کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں ہے، اور نہ ہی جائے وفات کے بارے میں کوئی جانتا ہے، چنانچہ اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ) ترجمہ:اللہ تعالی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارشوں کے نازل ہونے کے بارے میں جانتا ہے، رحمِ مادر میں کیا ہے؟اسی کے علم میں ہے ، کسی نفس کو نہیں پتہ کہ اس نے کل کیا کمانا ہے، اور نہ ہی اسے اپنی مرنے کی جگہ کا علم ہے، بیشک اللہ تعالی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ لقمان /34
اللہ اعلم .