"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: میں نے سوال نمبر: (36567) کا جواب پڑھا ہے، اور اس جواب کے آخری پیرے میں ہے کہ: "یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے"تو کیا میری حالت بھی اسی کے ضمن میں آسکی ہے کہ میری مونچھیں مکمل طور پر نہیں آتیں تھوڑی سی جگہ پر بال قدرتی طور پر نہیں اگتے، جسکی وجہ سے مجھے کافی لوگوں کے سامنے خفگی اور شرم اٹھانی پڑتی ہے، تو کیا میں اس سے بچنے کیلئے اپنی مونچھیں مکمل طور پر مونڈ سکتا ہوں؟
الحمد للہ.
اول:
عید کی قربانی کرنے والے شخص کیلئے اپنے بال ، ناخن، اور جلد کے کسی حصہ کو کاٹنا اہل علم کے ہاں ایک اختلافی مسئلہ ہے، اور ویب سائٹ پر جس موقف کو اپنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ: عید کی قربانی کرنے والے کیلئے ناخن، بال، اور جلد کے کسی حصہ کو کاٹنا منع ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو، اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن مت کاٹے) مسلم: (1977) اور مسلم کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ : (جب عشرہ [ذو الحجہ] شروع ہوجائے ، اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال، اور جلد کے کسی حصہ کو مت کاٹے)
مزید معلومات کیلئے سوال نمبر: (83381) اور سوال نمبر: (36567) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر مونچھوں کے بال نہ مونڈنے پر بالکل واضح عیب نظر آئے، یا آپکے کہنے کے مطابق بال نہ ہونے کی وجہ سے اذیت اور تکلیف بھی ہو، تو –اللہ اعلم-یہی لگتا ہے کہ اس حال میں عیب زائل کرنے کیلئے بال مونڈنا جائز ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اگر کوئی ضرورت پڑنے پر بال، ناخن، یا جلد کے کسی حصے کو کاٹ دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: اسے زخم لگ جانے کی وجہ سے بال کاٹنے پڑیں، ناخن ٹوٹ جانے کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہو، یا جلد کا اوپر سے چھلکا اتر جائے، جسکی وجہ سے تکلیف ہوتی ہو، اور وہ اس تکلیف سے بچنے کیلئے اسے کاٹ دے تو ان تمام صورتوں میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے"انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثيمين " (25/161
واللہ اعلم .