اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

عقيقہ كا حكم، اور كيا فقير سے عقيقہ ساقط ہے ؟

07-01-2010

سوال 20018

اللہ تعالى نے مجھے بيٹا عطا كيا ہے، ميں نے سنا كہ عقيقہ كے ليے ميرے خاوند كو دو بكرياں ذبح كرنا ہونگى، اور اگر بہت زيادہ مقروض ہونے كى بنا پر ايسا نہ كر سكتا ہو تو كيا عقيقہ ساقط ہو جائيگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عقيقہ كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اس ميں تين قول ہيں:

پہلا قول:

كچھ علماء كرام تو عقيقہ كو واجب قرار ديتے ہيں.

دوسرا قول:

كچھ علماء كرام كہتے ہيں عقيقہ مستحب ہے.

تيسرا قول:

كچھ علماء كرام اسے سنت مؤكدہ كہتے ہيں.

اور سنت مؤكدہ والا قول راجح معلوم ہوتا ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" عقيقہ سنت مؤكدہ ہے، لڑكے كى جانب سے دو اور لڑكى كى جانب سے ايك بكرى جس طرح كى قربانى ميں ذبح ہوتى ہے اسى طرح عقيقہ كى بھى ذبح كى جائيگى، اور عقيقہ پيدائش كے ساتويں روز كيا جائيگا، اور اگر ساتويں روز سے تاخير كرے تو بعد ميں كسى بھى وقت عقيقہ كرنا جائز ہے، اور اس تاخير سے وہ گنہگار نہيں ہوگا، ليكن افضل اور بہتر يہى ہے كہ حتى الامكان جلد كيا جائے اور تاخير نہ ہو.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 439 ).

ليكن علماء كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ فقير اور تنگ دست پر واجب نہيں چہ جائيكہ مقروض شخص پر، اور عقيقہ سے بڑى چيز مقدم نہيں كى جائيگى مثلا قرض كى ادائيگى پر حج.

اس ليے مالى حالت كى بنا پر آپ كے ذمہ عقيقہ لازم نہيں ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر ميرے كئى بيٹے ہوں اور مالى استطاعت نہ ہونے كى بنا پر ميں نے كسى ايك كا بھى عقيقہ نہ كيا ہو تو ميرى اولاد كے عقيقہ كا اسلام ميں كيا حكم ہے، كيونكہ ميں ملازمت كرتا ہوں اور ميرى تنخواہ محدود ہے جو صرف ماہانہ خرچ كے ليے ہى ہوتى ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ تنگ دست ہيں، اور آپ كى آمدنى صرف اپنے اور آپ كے اہل و عيال كے ليے ہى كافى ہوتا ہے، تو آپ كے ليے بطور قرب عقيقہ نہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

اور اللہ تعالى نے دين ميں تمہارے ليے كوئى تنگى نہيں ركھى الحج ( 78 ).

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو التغابن ( 16 ).

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو، اور جب تمہيں كسى چيز سے منع كروں تو اس سے اجتناب كيا كرو "

اور جب كسى وقت بھى آپ كے ليے عقيقہ كرنے ميں آسانى ہو اور مالى حالت بہتر ہو جائے تو آپ كے ليے عقيقہ كرنا مشروع ہو گا "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 436 - 437 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

ايك شخص كو اللہ تعالى نے كئى بيٹے عطا كيے ليكن اس نے كسى كا بھى عقيقہ نہيں كيا، كيونكہ وہ فقر و تنگ دستى كى حالت ميں تھا، اور كچھ برس بعد اللہ تعالى نے اپنے فضل و كرم سے اسے غنى اور مالدار كر ديا تو كيا اس كے ذمہ عقيقہ ہو گا ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جو كچھ بيان كيا گيا ہے اگر واقعتا ايسا ہى ہے تو اس كے مشروع ہے كہ وہ ہر بيٹے كے بدلے دو بكرياں ذبح كرے "

ديكھيں:فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 441 - 442 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ايك شخص كے كئى بيٹے اور بيٹياں ہيں اور اس نے كسى ايك كا بھى عقيقہ نہيں كيا، يا تو وہ جاہل تھا يا پھر اس نے سستى و كاہلى سے كام ليا، اس ميں سے بعض تو بڑى عمر كے ہو چكے ہيں، اب اس كے ذمہ كيا لازم آتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر تو وہ جاہل تھا يا اس نے ليت و لعل سے كام ليتے ہوئے كہا كہ كل كر لونگا حتى كہ وقت جاتا رہا تو اب ان كا عقيقہ كر دے تو بہتر ہے، اور اگر عقيقہ كى مشروعيت كے وقت وہ تنگ دست تھا تو اس پر كچھ لازم نہيں "

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 2 / 17 – 18 ).

اسى طرح اس كى نيابت ميں گھر والوں پر واجب نہيں ہوتا، اگرچہ ان كے ليے ايسا كرنا جائز تو ہے ليكن واجب نہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے نواسوں حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما كى جانب سے عقيقہ كيا تھا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2841 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4219 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 2466 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

دوم:

اور اگر آپ كے ليے حج اور عقيقہ ميں تعارض آ جائے تو قطعى طور پر عقيقہ سے حج كو مقدم كيا جائيگا، اور اگر آپ اپنى اولاد كا عقيقہ كرنا چاہيں، اگرچہ وہ بڑى عمر كے ہى ہوں تو عقيقہ كرنا جائز ہے، اور آپ كے ليے اس دعوت كے ليے مدعو افراد كو عقيقہ كا كہنا لازم نہيں.

اور نہ ہى لوگوں كے ليے جائز ہے كہ وہ آپ كے اس فعل پر آپ سے مذاق كريں، كيونكہ آپ كا عمل صحيح ہے، اور عقيقہ كا گوشت پكا كر لوگوں كو كھانے كى دعوت دينا شرط نہيں، بلكہ آپ كچا گوشت بھى تقسيم كر سكتے ہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" ولادت كے ساتويں روز اللہ كى جانب سے اولاد ملنے كا شكر ادا كرنے كے ليے ذبح كرنا سنت ہے، چاہے لڑكا ہو يا لڑكى؛ اس كى دليل كئى ايك احاديث سے ملتى ہے، اور جو شخص اپنى اولاد كا عقيقہ كرے تو اس كے ليے لوگوں كو گھر ميں كھانے كى دعوت دينا جائز ہے، اور اسے يہ بھى حق ہے كہ وہ كچا يا پكا كر گوشت فقراء و مساكين اور عزيز و اقارت اور دوست و احباب ميں تقسيم كر دے"

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 442 ).

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔