اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

لڑكى پردہ كب كريگى ؟

18-01-2008

سوال 20475

جب لڑكى كے جسمانى بال اگ جائيں تو كيا لڑكى كے ليے مكمل پردہ كرنا واجب ہو جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدمى بلوغت كے بعد مكلف شمار ہوتا ہے، ليكن بلوغت سے قبل وہ مكلف نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين قسم كے افراد سے قلم اٹھا لى گئى ہے، بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بے عقل اور پاگل شخص سے حتى كہ وہ ٹھيك ہو جائے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4402 ).

اس بنا پر جب لڑكى بالغ ہو جائے تو اسے مكمل پردہ كرنا واجب ہے بلوغت كى تين علامتيں ہيں جو لڑكے اور لڑكى ميں مشترك ہيں:

1 - احتلام

2 - شرمگاہ كے گرد سخت بال آنا.

3 - پندرہ برس كى عمر كو پہنچ جانا.

لڑكى ميں ايك علامت زيادہ ہے:

4 - حيض كا آنا.

لہذا جب لڑكى كو بلوغت كى ان چار علامات ميں سے كوئى ايك علامت ثابت ہو جائے تو اس پر دين كے سب فرائض پر عمل كرنا، اور سب ممنوعہ كام سے اجتناب كرنا واجب ہو جاتا ہے، اور ان فرائض ميں مكمل پردہ كرنا بھى شامل ہے.

ليكن لڑكى ولى كو چاہيے كہ وہ اس واجبات كے التزام اور ممنوعہ كاموں سے اجتناب كرنے عادت بلوغت سے قبل ہى كرنى شروع كر دے، تا كہ اس كى پرورش ہى اس پر ہو، اور بلوغت كے بعد اس كے ليے يہ اعمال مشكل اور مشقت كا باعث نہ ہوں، شريعت اسلاميہ ميں مقرر كردہ تربوى اصول ميں شامل ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اپنى اولاد كو سات برس كى عمر ميں نماز كى ادائيگى كا حكم دو، اور دس برس كى عمر ميں انہيں مارو، اور ان كے بستر جدا كر دو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 495 ) مسند احمد ( 2 187 ) يہ حديث عمرو بن شعيب عن جدہ كے طريق سے مروى ہے.

اور ابو داود ميں اور ترمذى ميں اس موضوع كى حديث سبرۃ بن سعيد سے مروى ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل حديث نمبر ( 247 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

سنن ابو داود حديث نمبر ( 494 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 407 ).

اور بخارى و مسلم ميں حديث ہے ربيع بنت معوذ رضى اللہ تعالى عنہا عاشوراء كے روزوں كا بيان كرتى ہوئى كہتى ہيں كہ جب مسلمانوں پر روزے فرض كيے گئے:

اس حديث ميں بيان ہوا ہے: " اس كے بعد ہم عاشوراء كا روزہ ركھا كرتى تھيں، اور اپنى چھوٹے بچوں كو روزہ ركھوايا كرتى تھيں، اور انہيں مسجد لے جاتيں، اور ان كے ليے روئى كا كھلونا بنا ليتيں جب ان ميں سے كوئى بھوك كى بنا پر روتا تو ہم اسے يہ كھلونا دے ديتى تھيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1960 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1136 ).

اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے:

" جب بچے ہم سے كھانا مانگتے تو ہم انہيں كھلونا دے ديتيں كہ وہ كھيليں حتى كہ اپنا روزہ مكمل كر ليتے "

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس حديث ميں بچوں كو اطاعت كرنے كى مشق اور انہيں عبادات كا عادى بنانے كا بيان ہے، ليكن وہ مكلف نہيں ہيں. اھـ

ديكھيں: شرح صحيح مسلم ( 8 14 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

چاہے بچہ مكلف نہيں، ليكن اس كا ولى مكلف ہے كہ بچے كو حرام كام نہ كرنےدے، كيونكہ خدشہ ہے كہ وہ اس كا عادى بن جائے گا، اور اس كو چھوڑنا مشكل ہو جائيگا " اھـ.

ديكھيں: تحفۃ المودود باحكام المولود ( 162 ).

اور جب لڑكى قريب البلوغ ہوتو خدشہ ہے كہ اس كا پردہ نہ كرنا فتنہ و فساد كا سبب بنے گا، اور نوجوان لڑكے اس كے فتنہ ميں پڑ جائينگے.

اس ليے لڑكى كے ولى كو چاہيے كہ وہ اس حال ميں لڑكى كو پردہ كروائےتا كہ اس كا سد ذريعہ ہو، اور خرابى و فساد كا باعث نہ ہو.

واللہ اعلم .

عورت کا لباس
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔