"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
مجھے علم ہے كہ مردوں پر مسجد ميں نماز ادا كرنى واجب ہے، ليكن اگر كوئى شخص مسجد سے دور رہائش پذير ہو تو ہر نماز كے ليے مسجد نہ جانے كے جواز ميں كتنى مسافت ہونى چاہيے ؟
اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر مسجد جانے كے ليے بيس منٹ كى مسافت طے كرنى پڑے، اور شہر ميں صرف يہى ايك مسجد ہے، تو كيا ميرے ليے گھر ميں نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
الحمد للہ.
اول:
مردوں مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے، اور نماز باجماعت سے پيچھے رہنا نفاق كى علامت ہے، آپ اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 120 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور مسجد سے گھر جتنا زيادہ دور ہو گا اجروثواب بھى اتنا ہى زيادہ ہو گا.
ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" لوگوں ميں نماز ميں سب سے زيادہ اجروثواب والا وہ ہے جو زيادہ دور اور زيادہ چلنے وال ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 623 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 622 ).
دوم:
مسجد كے قريب رہنے والے پر نماز باجماعت واجب ہے، دور رہنے والے پر نہيں.
سنت نبويہ ميں مسجد كے قرب كى تحديد ( اذان سننے والے ) كے الفاظ سے ہوئى ہے.
اس مراد يہ ہے كہ مسجد ميں ہونے والى اذان بغير لاؤڈ سپيكر كے سنے، اور مؤذن اذان بلند آواز سے دے، اور فضاء ميں خاموشى اور سكون ہو جو سماعت پر اثر انداز ہوتى ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى شخص نہيں، چنانچہ اس نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت طلب كى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رخصت دے دى، جب وہ جانے لگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور فرمايا:
كيا تم نماز كے ليے دى گئى اذان سنتے ہو؟
تو اس نے جواب ميں كہا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر آيا كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 653 ).
اور ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے اذان سنى اور نماز كے ليے نہ آيا تو اس كى نماز ہى نہيں، ليكن اگر كوئى عذر ہو "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 793 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 637 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:
اذان كى سماعت ميں معتبر يہ ہے كہ مؤذن شہر كے كنارے كھڑا ہو اور ماحول ميں خاموشى اور سكون ہو تو اس اذان كے سننے والے پر نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنا لازم ہے، اور اگر نہيں سنتا تو لازم نہيں. اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 353 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
اگر ميں تقريبا آٹھ سو ميٹر سے مؤذن كى اذان سنوں تو كيا ميں اپنى جگہ ہى نماز ادا كروں، يا كہ جس ميں اذان ہوئى ہے وہاں جا كر نماز ادا كروں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
آپ كو اس مسجد ميں جا كر نماز باجماعت ادا كرنى چاہيے، يا پھر كسى اور مسجد ميں جہاں آپ كو آسانى ہو، جب آپ اس كى استطاعت اور قدرت ركھتے ہوں.... پھر كميٹى نے مندرجہ بالا مذكورہ دونوں احاديث سے استدلال كيا ہے.
كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا كہ:
مسجد سے تقريبا پانچ سو ميٹر كے فاصلہ پر ايك شخص عمارت كى آٹھويں منزل پر رہائش پذير ہے، كيا اس كے ليے اپنے گھر كے افراد كے ساتھ مل كر نماز باجماعت ادا كرنا جائز ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
مسجد نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے، چنانچہ آپ مساجد ميں جا كر نماز ادا كريں جہاں مسلمان يہ فريضہ ادا كرتے ہيں، اور اس مسافت كى بنا پر آپ كے ليے اپنے اہل و عيال كے ساتھ نماز باجماعت گھر ميں ادا كرنے كى رخصت نہيں ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 59 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا مسجد اور گھر كے مابين مسافت كى تحديد پائى جاتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
مسافت كى كوئى شرعى تحديد نہيں، بلكہ اسے عرف عام، يا پھر ( لاؤڈ سپيكر ) كے بغير اذان كى سماعت سے محدود كيا جائيگا.
ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح سوال نمبر ( 700 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
عام طور پر بغير لاؤڈ سپيكر كے اذان كى آواز سننے والے نماز باجماعت اس مسجد ميں ادا كرنى واجب ہے جس كى اس نے اذان سنى ہے...
ليكن اگر اس كا گھر مسجد سے اتنا دور ہے كہ لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان كى آواز نہيں آتى تو اس كے ليے مسجد ميں جا كر نماز باجماعت ادا كرنا لازم نہيں، بلكہ اسے مستقل جماعت كروا كر نماز ادا كرنے كا حق حاصل ہے...
اور اگر وہ مشقت برداشت كر كے اس مسجد ميں نماز ادا كرتے ہيں جہاں سے بغير لاؤڈ سپيكر كے اذان سنائى نہيں ديتى تو اس ميں ان كے ليے بہت زيادہ اجروثواب ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 12 / 58 ).
واللہ اعلم .