"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں جانتا ہوں کہ آپ نے کتاب و سنت کی حقیقی طور پر اتباع کرنے والی جماعت پہچاننے کا طریقہ بتلا دیا ہے، اور جو بھی انکے منہج پر چلے گا وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا، میں جماعت اہل حدیث (سعودی سلفی) کے ساتھ تھا، مجھے کچھ لوگوں کی جانب سے ایسی معلومات ملیں، جن کے ذریعے وہ سلفی حضرات کی مذمت کرتے تھے، انکی باتیں بھی احادیث سے مزین تھیں، جس کی وجہ سے میں انکی بات کا کوئی جواب نہیں دے سکا، یا انکا انکار نہیں کر سکا۔
میں نے جب یہ احادیث سلفی حضرات کے سامنے پیش کیں تو انہوں نے بھی مجھے اطمینان خیز احادیث سنائیں جن کی وجہ سے میں سلفی حضرات کی بات بھی مسترد نہیں کر سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ میں سلفیوں کو نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ یہی میرے چھوٹے سے شہر میں قبر پرستوں کے مقابلے میں ایک جماعت ہے، اور اگر میں ان کو نھیں چھوڑتا تو کیا میں بھی ان سلفی حضرات کا اندھا مقلد بن جاؤں گا؟
کیونکہ سلفیوں کے مخالفین کہتے ہیں: " ہمارے لئے ایک امام کی اتباع واجب ہے" مختصرانداز میں بتائیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
بہت سی جماعتیں اور فرقے احادیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان احادیث کی سند صحیح ہے، پھر انہی کی مخالفت میں دیگر احادیث بھی آجاتی ہیں! تو انکی احادیث صحیح کیسے ہوگئیں؟ میں اس حالت میں کیا کروں؟
الحمد للہ.
ہم نے بہت سے سوالات کے جواب میں ایسے معیار اور میزان کے بارے میں گفتگو کی ہے جس کی وجہ سے ایک مسلمان شریعت سے متصادم فرقوں، جماعتوں، اور مختلف دھڑے بندیوں کا حکم جان سکتا ہے، یہاں بھی ہم اسی طرح کی مزید کچھ چیزیں بیان کرتے ہیں:
مسلمانوں میں موجود اس وقت اختلاف کی حالت میں اللہ تعالی نے لوگوں کو معرفتِ حق کیلئے اس طرح سے حیرانی و پریشانی میں بے کس و لا چار نہیں بنایا کہ وہ حق کو باطل میں سے پہچان نہ سکیں، بلکہ اللہ تعالی نے حق بات کیلئے چند علامات مقرر کی ہیں، اور سچے لوگوں کی نشانیاں بھی بنائی ہیں، اسی طرح منہج کیلئے بھی واضح روزِ روشن کی طرح عیاں علامتیں بنائی ہیں، لہذا منہج حق سے صرف گمراہ شخص ہی دور ہوگا۔
جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے کی بات کی، اور فرمایا کہ ایک گروہ کے علاوہ سب کے سب آگ میں جائیں گے؛ تو انکے بارے میں فرمایا: (جو آپکے اور صحابہ کرام کے راستے پر ہوگا) چنانچہ میزان اور معیار یہ ہے کہ صحابہ کرام کی موافقت کی جائے، اس کے بغیر کوئی چارا نہیں ہے، لہذا کوئی شخص کسی بھی حدیث کو لا کر یہ کہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اور پھر اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے اپنے فہم کے مطابق اسکا معنی و مفہوم بیان کرے، یہ طریقہ کار غلط ہے، بلکہ یہاں یہ دیکھنا ہوگا کہ صحابہ کرام کا فہم اس حدیث کے بارے میں کیا ہے؟ اس کے موافق ہے یا مخالف ؟
اسی اصول کی بنا پر اہل حق اور دیگر افراد میں حقیقی فرق کیا جاسکتا ہے، یعنی دین کو سمجھنے کیلئے سلف صالحین ، اور انکے نقش قدم پر چلنے والے ائمہ کرام کے فہم کو مشعلِ راہ قرار دیا جائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ امت کے افضل ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، وہی لوگ اس دین کا علم زیادہ رکھتے تھے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بارے میں خبر دی ہے۔
سیدھے راستے سے ہٹ جانے والے فرقوں پر نظر دوڑانے سے یہ واضح ہوگا کہ ایسے فرقے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، اور اس کیلئے آیات و احادیث سے ایسا مفہوم نکالتے ہیں جن سے عام لوگ اس وہم میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ بھی کتاب و سنت کی اتباع کرنے والے لوگ ہیں؛ لیکن وہ اپنے موقف کے بارے میں یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ یہ وہی فہم ہے جو صحابہ کرام نے ان آیات و احادیث سے لیا تھا۔
مثال کے طور پر : صفاتِ باری تعالی میں تحریف کرنے والے، قبرپرستی اور قبروں پر طواف کرنے والے، ذکر کرتے ہوئے رقص کرنے والے، تقدیر کا انکار کرنے والے، قرآن کو مخلوق سمجھنے والے، اور اس کے علاوہ دیگر منحرف عقائد و نظریات کے حامل افراد میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اس کے عقائد و نظریات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام والے عقائد ہیں، اگرچہ اس کے پاس استدلال کیلئے آیات، اور احادیث موجود ہیں، لیکن وہ یہ کبھی بھی ثابت نہیں کر سکیں گے کہ جو مطلب ومفہوم اِنہیں سمجھ میں آیا ہے، یہی مطلب و مفہوم وحی نازل ہونے کےو قت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کو سمجھ میں آیا تھا، جنہوں نے براہِ راست اس دین کونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔
یہ معیار بہت ہی پائیدار اور عظیم ہے، اسی معیار کی بنا پر انسان کسی بھی حق کا دعوی کرنے والے شخص کی بات کو پرکھ سکتا ہے کہ اسکی بات میں کتنا دم خم ہے؟ اور اس میں کیا کیا خرابیاں ہیں۔
سلفی علمائے کرام کی جانب سے ملنی والی توحید، فقہ، اور حدیث وغیرہ پر مشتمل رہنمائی کے مطابق آپ کا عمل کرنا درحقیقت اس دین کی اتباع کرنا ہے جسے تمام لوگوں کیلئے اللہ نے پسند کیا اور قابل اتباع قرار دیا ہے، کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیطان آپ کو بہکانے کی کوشش کرے کہ یہ تقلید ہے، اور تقلید جائز نہیں ہوتی! تو جان لیں کہ یہ صحیح منہج اور درست راستے سے انحراف کی ابتدائی کاروائی ہے، پس ایک عام مسلمان کیلئے اللہ تعالی نے اہل علم سے سوال کرنا ضروری قرار دیا ہے، پھر ان کی باتوں پر عمل کرنا اور انکے فتاوی جات پر عمل بھی اس کا تقاضا ہے۔
اور آپکو یہ علم ہے کہ صحیح اور درست راستے کے قریب ترین وہی لوگ ہیں جو کتاب و سنت کو سمجھنے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے راستے پر چلیں، حقیقت میں یہی لوگ سلف صالحین کے پیرو کار ہیں۔
جس مسلمان کے پاس تھوڑا بہت بھی شرعی علم ہو وہ خود ہی سنی ہوئی باتوں اور سلف صالحین سے ثابت شدہ احکامات میں موازنہ کر سکتا ہے۔
اور کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ مسائل میں مخالف کی بات درست ہو، لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ سلف صالحین کے منہج سے ہٹ کر کوئی منہج درست ہو، کیونکہ یہی راستہ سلف صالحین صحابہ کرام، تابعین عظام اور انکے نقش قدم پر چلنے والوں کا ہے۔
لہذا آپ کو سلفی علمائے کرام کی جانب سے بیان کیا جانے والا علمی مواد وہی ہے جو صحابہ کرام، سعید بن مسیب، زہری، مجاہد، عطا، مالک، حماد بن زید، حماد بن سلمہ، شافعی، احمد، بخاری، مسلم، ابو داود اور دیگر اعلام الہدی اور حق کے علمبرداروں نے بیان کیا ہے۔
جب کہ اہل بدعت صرف اپنی موافقت میں موجود باتوں کو ذکر کرتے ہیں، اپنے خلاف باتوں کا ذکر نہیں کرتے، یہ لوگ اپنی کتابوں کو سنت کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہوئے نظر آئیں گے، بلکہ اپنی کتابوں کی مخالفت میں سنت کو چھوڑ دیں گے اور اپنی کتابوں کو نہیں چھوڑیں گے، اسی طرح انکی عادت ہے کہ کتاب اللہ میں صریح تحریف کرتے نظر آئیں گے، اور احادیث سے ثابت شدہ جو بات بھی انکی مرضی سے متصادم ہوگی اسے ضعیف کہہ کر جان چھڑائیں گے، یہی وجہ ہے کہ انہیں "خواہش پرست" کا نام دیا گیا ہے۔
جبکہ اہل السنہ اپنے خلاف آنے والی بات کو بھی ذکر کرتے ہیں، اور اپنے حق میں آنے والی بات کو بھی بیان کرتے ہیں ، بلکہ احادیث مبارکہ کو تعصب کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، اگر حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو سب باتوں پر اسی حدیث کو ترجیح دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خواہش کی پیروی میں یہ لوگ کسی آیت میں تحریف یا کسی حدیث میں تغیر و تبدیلی کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ: نصوص وحی میں کوئی حقیقی تعارض نہیں ہوتا، بلکہ ظاہری طور پر تعارض محسوس ہوتا ہے، اور ہر فن کیلئے متخصص اہل علم ہوتے ہیں[جو اس علم کی گتھیاں سلجھاتے ہیں]، چنانچہ احادیث مبارکہ کی چھان پھٹک کیلئے مخصوص اہل علم ہیں جو صحیح اور ضعیف کے درمیان فرق کرتے ہیں، اس کے معانی مفاہیم واضح کر کے پیدا ہونے والے اشکالات زائل کر تے ہیں، اور ظاہری تعارض کو بھی مٹا تے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
سب سے بہتر طریقہ کار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو جاننے والے اہل حدیث اور فقہ الحدیث رکھنے والے لوگ ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جو بھی انکے پیچھے چلے گا وہی کامیاب ہوگا، اور جو انکی مخالفت کریگا وہ تباہ و برباد ہوگا۔
آپ اسی راستے پر گامزن رہیں، اور اللہ تعالی سے ہدایت، کامیابی، اور ثابت قدمی مانگیں۔
تاہم سائل کا یہ کہنا کہ اہل حدیث صرف سلفی سعودی ہی ہیں، تو انکی یہ بات درست نہیں ہے۔
کیونکہ اہل حدیث کسی خاص ملک یا مخصوص لوگوں کا نام نہیں ہے، بلکہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرے، اسے صحابہ کرام ، اور تابعین عظام کے فہم کے مطابق سمجھے۔
اللہ تعالی ہی ہدایت دینے والا ہے۔
واللہ اعلم.