"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایک خاتون کا نکاح تو ہوگیا ہے لیکن رخصتی سے پہلے ہی خاوند فوت ہوگیا، تو وہ اپنے اہل خانہ کیساتھ جہاں رہائش پذیر تھی وہیں عدت گزارے گی؟ یا اُسے اپنے خاوند کے گھر میں منتقل ہونا ہی پڑے گا؟ یاد رہے کہ وہ اِس سے پہلے خاوند کے ساتھ نہیں رہی،اور اُسکے سسرالیوں نے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے پاس عدت گزارنے کی پیش کش بھی کی ہے۔
الحمد للہ.
پہلی بات:
" ایسی خاتون جسکا نکاح تو ہوگیا ہے لیکن رخصتی سے پہلے ہی خاوند فوت ہوگیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق دیگر بیویوں کی طرح ہے، چنانچہ اسے مکمل حق مہر، اور وراثت ملے گی، اور اسے عدت بھی گزارنی ہوگی؛ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ان سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا، جس نے ایک خاتون سے شادی کی لیکن حق مہر مقرر نہیں کیا، اور نہ ہی ہم بستری کی اِس سے پہلے ہی وہ فوت ہوگیا، تو آپ نے کہا: "اُس خاتون کو مثل حق مہرملے گا، نہ کم نہ زیادہ، عدت گزارنی ہوگی، اور اسے وراثت بھی ملے گی"یہ سن کر معقل بن سنان الاشجعی نے کھڑے ہوکر کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اس فیصلے کے عین مطابق ہماری ایک خاتون بروع بنتِ واشق کے متعلق فیصلہ دیا تھا" یہ سن کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے" اسے امام احمد ، اور سنن اربعہ نے روایت کیا ہے، ترمذی نے صحیح قرار دیا،اور ایک جماعت نے حسن قرار دیا۔
ماخوذ از: "فتاوى اللجنة الدائمة" (20/ 412)
اسی طرح سوال نمبر (105462) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
اس خاتون کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے۔
دوسری بات:
ہم بستری سے قبل جس خاتون کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی عدت گزارے گی، خاوند کے گھر میں نہیں؛ اس لئے کہ جب خاوند فوت ہوا تو وہ اِسی گھر میں تھی۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک لڑکی کا خاوند نکاح کے بعد اور ہم بستری سے قبل ہی فوت ہوگیا، تو وہ کہاں عدت گزارے گی؟
تو انہوں نے جواب دیا: "اپنے اہل خانہ کے ساتھ، کیونکہ وہ ابھی تک خاوند کے گھر میں منتقل ہی نہیں ہوئی"
ماخوذ از: "ثمرات التدوين" (ص 116)
واللہ تعالی اعلم .