"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
الحمدللہجس چیز کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اس میں معنی مختلف ہے ۔
اگر تو اس سے مراد لی جائے کہ اعلی وصف کا کون حق دار ہے اور کون اس کا حق رکھتا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک ہے کیونکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہے جس کی ہر چیز میں مثل اعلی ہے جس کا معنی وصف اعلی ہے ۔
آپ کے سوال میں جو آیات مذکور ہیں ان کا معنی اور مراد ذیل میں دیا جاتا ہے کہ :
اللہ سبحانہ وتعالی اپنی ذات اور صفات اپنے اسماء اور افعال میں کامل ہے اس کی کوئی شبیہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر اور شریک ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
( آپ کہہ دیجۓ کہ وہ اللہ تعالی ایک ہے اللہ تعالی بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے )
اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
( اللہ تعالی جیسی کوئی چیز نہیں ( نہ ذات میں نہ صفات میں ) اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے )
اور اگر اس سے مراد یہ لیا جائے کہ منہج اور طریقے اور سیرت میں کون اعلی مثال ہے تو اس کی تفسیر یہ ہو گی کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
کیونہ وہ مومنوں کے لۓ ان کی سیرت واعمال اور جہاد اور صبر اور اس کے علاوہ دوسرے اخلاق فاضلہ میں سب لوگوں میں سے ہدایت وسیرت اور قول وعمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ اعلی مثال ہیں ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
( یقینا تمہارے لۓ رسول اللہ میں ہر اس شخص کے لۓ عمدہ نمونہ (موجود ) ہے جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہے )
اور اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف میں فرمایا ہے کہ :
( اور بے شک آپ تو خلق عظیم پر فائز ہیں )
اور عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے متعلق بیان فرماتی ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا )
اس کا معنی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے اوامر پر عمل کرتے اور اس کے نواہی سے رک جاتے تھے اور وہ اخلاق اختیار کرتے تھے جیسا اخلاق رکھنے والوں کی قرآن تعریف بیان کرتا ہے اور اس اخلاق سے بچتے تھے جس کی قرآن مجید مذمت کرتا ہے ۔
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے ۔ .