"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اما بعد:
پہلے سوال كا جواب تو حالت مختلف ہونے كى بنا پر جواب بھى مخلتف ہوگا:
چنانچہ اگر اس فعل سے مراد تعلقات ميں جو خرابى پيدا ہوئى ہے اس كى حدت ميں كمى كرنا ہے، اور اس كے بعد حالات صحيح ہونے كى صورت ميں دوبارہ واپس آ جائے يا پھر وہ ايك دوسرے سے دور رہنے كا تجربہ كرنا چاہتے ہيں كہ اس كے نتيجہ ميں ان پر اور اولاد پر كيا اثرات پڑتے ہيں تا كہ كوئى فيصلہ كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوں، اور وہ اس مؤقت دورى پر راضى ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر انہوں نے يہ فيصلہ اور ايك دوسرے سے عليحدگى بغير طلاق كے كيا ہے تو كہا جائيگا كہ: اس عليحدگى كى بنا پر عورت كا جو حق فوت ہو رہا ہے اگر عورت اس سے دستبردار ہو جاتى ہے، اور خاوند بھى اس كے حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہے، اور وہ ديكھتے ہيں كہ ان دونوں اور بچوں كى مصلحت بھى اسى ميں ہے، اور پھر جہاں عورت اور اس كى اولاد رہتى ہے وہ پرامن ہے ضائع ہونے كا كوئى خدشہ نہيں تو پھر ان شروط كے ساتھ جائز ہے.
ليكن اگر عورت معاشرت زوجيت كى محتاج ہے، اور خاوند اسے نہيں كرنا چاہتا، يا پھر يہ خدشہ ہو كہ اس سے كوئى ايسى چيز پيدا ہو جائيگى جس سے عورت كى عفت و عصمت ميں شك پيدا كر ديگى اور اس طرح كا كوئى سبب ہو تو وہ اسے طلاق دے دے، اور اپنى اولاد كے اخراجات برداشت كرتا رہے.
واللہ اعلم.
دوسرا سوال:
اس مطلقہ عورت كى عدت جسے حيض آتا ہو، اور خاوند نے اس سے دخول بھى كيا ہو اور وہ حاملہ نہ ہو اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:
اكثر اہل جن ميں معاصر علماء مثلا شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہم اللہ وغيرہ شامل ہيں نے راجح يہى قرار ديا ہے كہ تين حيض ختم ہونے سے عدت ختم ہو جائيگى، لہذا جيسے ہى تيسرا حيض ختم ہوا اس كى عدت ختم ہو جائيگى.
كبار صحابہ كرام مثلا عمر بن خطاب، على بن ابى طالب، ابن مسعود رضى اللہ عنہم كا قول يہى ہے، اور ابن قيم رحمہ اللہ نے ابو بكر اور ابو موسى رضى اللہ عنہم وغيرہ سے يہى نقل كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 310 ) اور فتاوى الطلاق فضيلۃ الشيخ ابن باز ( 193 ) اور جامع احكام النساء ( 4 / 243 ).
تيسرا سوال:
رجعى طلاق والى عورت كے ليے اپنے خاوند كے سامنے آنا اور اس كے ليے خوبصورتى اختيار كرنا اور خوشبو وغيرہ لگانا جائز ہے، اور اسے خاوند سے بات چيت كرنا اور اس كے ساتھ بيٹھنا اور ہر كام كرنا جائز ہے صرف جماع يا جماع كے دواعى كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ تو رجوع كے وقت ہوتے ہيں "
الشيخ ابن عثيمين.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 310 ).
اس ليے اگر خاوند نے اپنى بيوى كا بوسہ ليا يا اس كو اپنے ساتھ لگايا اور اس ميں وہ رجوع كى نيت ركھتا ہو تو بغير كسى اختلاف كے رجوع صحيح ہے، اور اگر رجوع كى نيت نہ ركھے تو پھر بعض علماء كرام اسے جائز سمجھتے ہيں كيونكہ وہ اس كى بيوى ہے، ليكن اس سے رجوع حاصل نہيں ہوگا.
اور بعض علماء كرام كا خيال ہے كہ بوس و كنار اور اپنے ساتھ لگانا وغيرہ جماع كے دوسرے ابتدائى كام كرنے سے اگر وہ رجوع كى نيت نہيں ركھتا تو گنہگار ہوگا.
اس ليے احتياط اسى ميں ہے كہ ايسا اسى وقت كرے جب رجوع كرنے كى تصريح كر لے، مثلا وہ اپنى بيوى كو كہے ميں نے تجھ سے رجوع كر ليا، اور اس پر دو مسلمان گواہ بھى بنائے اور ان كے سامنے كہے ميں تمہيں گواہ بناتا ہوں كہ ميں نے اپنى فلاں بيوى سے رجوع كر ليا ہے، پھر مباح كام ميں سے جو چاہے كر لے "
ديكھيں: سبل السلام ( 2 / 267 ).
واللہ اعلم .