"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا حاملہ عورت پر رمضان اورعاشوراء کے روزے رکھنا واجب ہيں ؟
میں نے اپنی حاملہ بیوی کو رمضان کے روزہ نہ رکھنے کی نصیحت کی لیکن وہ نہيں مانی ، اسے کمزوری اورخون کی کمی بھی ہے ، بالآخر رمضان کے آخر ميں تیسرے مہینہ کا حمل ساقط ہوگیا ، اب ان ایام کا حکم ہے جس میں اس نے روزے ترک کیے تھے کیا اسے آنے والے رمضان سے قبل قضاء کرنی واجب ہے ؟
کیا حاملہ عورت بھی عادی روزے رکھے گی ؟
وہ ہمیشہ دوران حمل روزے رکھنے پر اصرار کرتی ہے یعنی میڈیکل رپورٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ بچے پر روزے کا کوئي اثر نہيں ؟
الحمد للہ.
مندرجہ بالا سوال تین امور پر مشتمل ہے :
پہلا :
حاملہ عورت کا رمضان کے روزے چھوڑنے کا حکم :
دوم :
رمضان میں اسقاط حمل پر کیا مرتب ہوتا ہے ۔
سوم :
رمضان کے بعد قضاء کا حکم ۔
- اگرحاملہ عورت کو خدشہ ہو کہ روزہ اسے یا بچے کو ضرر ہوگا تواس کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے ، لیکن اگر اسے اپنے آپ یا بچے کے ہلاک ہونے یا شدید اذیت پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں اس پر روزہ چھوڑنا واجب ہے ، لیکن اسے فدیہ کے بغیر قضاء کرنا ہوگي اس میں علماء کرام کا اتفاق ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمان ہے :
اوراپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔
اوراسی طرح اس پر بھی علماء کرام کا اتفاق ہے کہ اس حالت میں فدیہ ادا کرنا واجب نہيں کیونکہ یہ بھی اس مریض کی طرح ہی ہے جسے پنی ہلاکت کا خدشہ ہو ۔
اوراگر اسے صرف اپنے بچے کے بارہ میں خدشہ ہو توبعض علماء کرام کہتے ہيں کہ :
اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ، اس کے بدلہ میں اسے قضاء اورفدیہ ادا کرنا ہوگا ۔
اورفدیہ یہ ہے کہ ہردن کے بارہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما مندرجہ ذیل آيت کےبارہ میں فرمایا :
اورجو اس کی طاقت نہيں رکھتے وہ ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ ادا کریں
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتےہيں کہ :
یہ بوڑے مرد اورعورت کے لیے رخصت تھی کہ وہ روزہ نہ رکھیں اوراس کے فدیہ میں ہر دن کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائيں ، اورحاملہ اوردودھ پلانی والی عورت بھی جب ڈرے تو فدیہ ادا کرے ۔
ابوداود رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ جب وہ اپنی اولاد کے بارہ میں ڈرے ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1947 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 4 / 18 - 25 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں : کتاب الموسوعۃ الفقھیۃ ( 16 / 272 ) ۔
لھذا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر حاملہ عورت کو اگر روزہ رکھنے سے ضرر ہوتا ہو یا پھر بچے کو ضرر کا اندیشہ ہو تو اس پر روزہ چھوڑنا واجب ہوگا ، لیکن یہ ضرر کوئي ماہر ڈاکٹر کے مشورہ سے ہی ثابت ہوگا ۔
- یہ تو رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنے کے بارہ میں تھا ، رہا مسئلہ عاشوراء کے روزے کے بارہ میں توبالاجماع یہ روزہ واجب نہيں ہے بلکہ روزہ رکھنا مستحب ہے ، اورپھر کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے ، اورجب وہ اسے روزہ رکھنے سے منع کردے تواس کی اطاعت کرنی واجب ہے اورپھر خاص کر جب اس میں بچے کی مصلحت شامل ہو ۔
- اسقاط حمل کے بارہ میں گزارش ہے کہ :
اگر فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے جس طرح آپ نے ذکر کیا ہے کہ اس کا حمل تیسرے ماہ میں ساقط ہوگیا لھذا یہ خون نفاس کا خون شمار نہيں ہوگا بلکہ استحاضہ کا خون ہے ،کیونکہ اس سے جو کچھ ساقط ہوا ہے وہ صرف جما ہوا خون تھا جس میں شکل وصورت بھی مکمل نہیں ہوئی تھی ۔
لھذا اس بنا پر وہ نماز بھی پڑھے گي اورروزہ بھی رکھے گی چاہے خون آتا رہے کیونکہ وہ استحاضہ کا خون ہے ، لیکن ہرنماز کےلیے وضوء کرنا ضروری ہے ، اوراس پر ضروری ہے کہ اس نے جتنے روزے چھوڑے ہیں ان کی قضا کرے اورجتنی نمازیں ترک کی ہیں وہ بھی ادا کرے ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 218 ) ۔
- پچھلے فوت شدہ ایام کی قضاء کے بارہ میں ہم یہ کہيں گے کہ :
جس کسی کے بھی رمضان المبارک کےروزے باقی رہتے ہوں اوراس نے نہ رکھے ہوں تو اس پر لازم ہے کہ آنے والے رمضان سے قبل ہی اس کی قضاءمیں روزے رکھے ۔
صرف اس کے لیے اتنا ہے کہ وہ شعبان کے مہینہ تک مؤخر کرسکتا ہے ، اوراگر دوسرا رمضان آگیا اوربغیر کسی عذر کے اس نے پچھلے رمضان کے بقیہ روزوں کی قضاء نہ کی ہو تواس کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا ۔
اوراس پر قضاء کے ساتھ فدیہ بھی دینا لازم ہوگا کہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کوکھانا کھلائے ، جیسا کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے بھی اس کا فتوی دیا ہے اوراس فدیہ کی مقدار ہر دن کے بدلے میں اپنے ملک میں کھائي جانے والی خوراک کا نصف صاع ہے ۔
یہ فدیہ مساکین کو ادا کیا جائے گا چاہے ایک ہی مسکین کو سارا فدیہ ادا کردیا جائے ، لیکن اگر اس تاخیر میں اس کا کوئي عذر ہو یعنی کسی مرض یا پھر سفر وغیرہ کی وجہ سے وہ قضاء نہ کرسکا ہوتو اس پر صرف قضاء ہی ہوگي ، اس پر فدیہ نہيں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجو کوئي مریض ہو یا مسافر اسے دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنا ہوگي ۔ '
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
دیکھیں فتاوی الشیخ ابن باز ( 15 / 340 ) ۔
واللہ اعلم .