"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایسی چیزوں کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے جو بطور صدقہ کسی کو دے دی گئی ہیں؟ ہوا یوں کہ میں نے مسجد کے لئے خوشبو اور پانی کی بوتلیں صدقہ کیں، تو وقتاً فوقتا میں مسجد میں اس خوشبو اور پانی کو استعمال کرتا رہتا ہوں، شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
الحمد للہ.
مسجد یا کسی اور جگہ کے لئے دی گئی یا وقف شدہ چیز کو اسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے جس طرح وقف کنندہ یا عطیہ کنندہ اسے استعمال کرنے کی اجازت دے چکا ہے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
"وقف چیز کے بارے میں لازمی ہے کہ اس کو صرف اسی طرح استعمال میں لایا جائے جیسے وقف کنندہ نے شرط لگائی ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (16/ 2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
اس بنا پر عوام کے لئے وقف کردہ اس چیز سے وقف کنندہ بھی عام مسلمانوں کی طرح استفادہ کر سکتا ہے، عام مسلمانوں سے زیادہ استفادہ مت کرے؛ چنانچہ وقف شدہ چیز اسی طرح نوش کرے جیسے عام مسلمان کرتے ہیں، اور دیگر مسلمانوں کی طرح ہی اس سے مستفید ہو، ہاں اگر وقف کنندہ نے وقف کرتے ہوئے اس سے ہٹ کر کوئی خاص شرط لگائی ہو تو اس کو مد نظر رکھا جائے گا۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں کنواں وقف کیا تو آپ رضی اللہ عنہ بھی اس میں سے اسی طرح پانی لیتے تھے جیسے دیگر مسلمان پانی بھرتے تھے، چنانچہ سنن ترمذی: (3703) میں سیدنا عثمان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کون ہے جو بئر رومہ خرید کر اپنی باری بھی مسلمانوں کی باری جیسی بنا لے[تو میں اس کے لئے ضامن ہوں] جنت میں اس سے بھی بہترین بدلے کا) تو عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے وہ کنواں اپنی ذاتی دولت سے خرید کر وقف کر دیا۔
اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عثمان رضی اللہ عنہ کا بئر رومہ کے بارے میں کہنا کہ "میری باری بھی اس میں دیگر مسلمانوں جیسی ہی ہوگی" یہ کوئی شرط نہیں ، بلکہ یہ اس بات کی خبر ہے کہ وقف کنندہ بھی عوام کے لئے وقف کردہ چیز سے استفادہ کر سکتا ہے۔" ختم شد
"الفتاوى الفقهية الكبرى" (2/ 275)
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کنواں رکھے تو اپنی ملکیت میں لیکن پانی پینے کی سب کو اجازت دے دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ خود بھی اسی کنویں سے پانی پیئے، اگرچہ اس نے اس چیز کی صراحت کے ساتھ شرط نہ بھی لگائی ہو؛ کیونکہ وہ خود بھی پانی پینے والوں میں شامل ہے۔" ختم شد
"شرح صحیح البخاری" (6/ 492)
امام بخاری رحمہ اللہ بھی اپنی صحیح بخاری (4/ 7)میں کہتے ہیں:
"ہر وہ شخص جو اپنا اونٹ یا کوئی بھی چیز اللہ کی راہ میں دے دیتا ہے تو وہ خود بھی اس سے اسی طرح استفادہ کر سکتا ہے جیسے کہ کوئی اور اس سے استفادہ کرتا ہے، چاہے اس نے پہلے سے کوئی شرط نہ لگائی ہو" ختم شد
اس بنا پر : جو شخص بھی مسجد کے لئے پانی کی بوتلیں عطیہ کرے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسجد کے نمازی اس پانی سے مستفید ہوں، اور چونکہ عطیہ کنندہ بھی اسی مسجد کا نمازی ہے اس لیے وہ بھی اس سے دیگر نمازیوں کی طرح مستفید ہو سکتا ہے۔
اور یہی معاملہ خوشبو کا ہے : چنانچہ اگر عطیہ کنندہ نے خوشبو اس لیے عطیہ کی کہ نمازی اس خوشبو کو استعمال کریں تو عطیہ کنندہ بھی دیگر نمازیوں کی طرح اس خوشبو سے مستفید ہو سکتا ہے۔
واللہ اعلم