"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
یہ ایسا اجتہادی مسئلہ ہے جس میں صحابہ کرام، تابعین عظام، اور ائمہ کرام کا دس سے زائد اقوال پر اختلاف ہے۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (13/ 209)
میں ہے کہ:
"مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: نماز عیدین کی پہلی رکعت میں چھ
تکبیرات ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات ہیں، نیز یہی موقف مدینہ منورہ کے
فقہائے سبعہ ، عمر بن عبد العزیز ، زہری اور مزنی رحمہم اللہ جمیعاً کا ہے۔
ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ فقہائے کرام
پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کو ساتویں تکبیر شمار کرتے ہیں، اور دوسری رکعت میں
اٹھتے ہوئے کہی جانے والی تکبیر کو پانچ زائد تکبیروں سے الگ شمار کرتے ہیں۔۔۔
جبکہ احناف اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق نماز عیدین میں چھ تکبیرات زائد
ہیں، تین پہلی رکعت میں اور تین ہی دوسری رکعت میں، یہ موقف ابن مسعود، ابو موسی
اشعری، حذیفہ بن یمان، عقبہ بن عامر، ابن زبیر، ابو مسعود بدری، حسن بصری، محمد بن
سیرین، ثوری، علمائے کوفہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم جمیعاً کا ہے۔
شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ : پہلی رکعت میں سات تکبیرات زائد ہیں اور دوسری میں پانچ تکبیرات زائد ہیں۔
عینی رحمہ اللہ نے عیدین کی زائد تکبیرات کے بارے میں 19 اقوال ذکر کیے ہیں۔" انتہی
امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کے نماز عید میں تکبیرات کہنے کی تعداد اور مقام کے تعین سے متعلق دس
اقوال ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ: پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیرات ہوں گی اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیرات ہوں گی۔
عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ اکثر صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام کا موقف ہے۔
دوسرا قول: تکبیر تحریمہ پہلی رکعت کی سات تکبیرات میں شامل ہے، یہ امام مالک، احمد اور مزنی رحمہم اللہ جمیعاً کا موقف ہے۔
تیسرا قول: پہلی اور دوسری دونوں رکعتوں میں تکبیرات کی تعداد سات ہے، یہ انس بن مالک، مغیرہ بن شعبہ، ابن عباس، سعید بن مسیب، اور نخعی رحہم اللہ جمیعاً سے منقول ہے۔
چوتھا قول: پہلی رکعت میں تکبیرِ
تحریمہ کے بعد اور قراءت سے پہلے تین تکبیرات ہیں، اور دوسری رکعت میں قراءت کے بعد
تین تکبیرات ہیں، یہ موقف متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے جن میں ابن مسعود، ابو
موسی، ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہم سمیت سفیان ثوری اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ
سے منقول ہے۔۔۔ الخ" انتہی
"نيل الأوطار" (3/ 355)
اس مسئلے کے متعلق احادیث مبارکہ میں
صحیح ترین روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم عید الفطر اور عید الاضحی میں پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہتے تھے اور دوسری
رکعت میں پانچ تکبیرات کہتے تھے"
سنن ابو داود: (1149) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا
ہے اور اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد حسن اسانید کے ساتھ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نماز عیدین کی پہلی رکعت میں سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں پانچ
تکبیرات کہتے تھے۔۔۔ جبکہ صحابہ کرام کا عیدین میں تکبیرات کہنے سے متعلق کافی
اختلاف ہے، ان کے تابعین کا بھی اس بارے میں کافی اختلاف ہے" انتہی
" التمهيد " (16/ 37-39)
نیز آپ سوال نمبر: (36491) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
دوم:
اس قسم کے مسائل میں اختلاف کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ مخالف کے عمل کو مسترد کہنا مشکل ہوتا ہے؛ مسترد ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے؟! جبکہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ وہی ائمہ اجتہاد، اور اصحاب حدیث اور قابل اتباع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ
عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات سے متعلق ہر اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں جو صحابہ
کرام سے منقول ہے، چنانچہ امام احمد کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات کے متعلق
اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔" انتہی
" الفروع " (3/201)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے پہلی رکعت
میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
"اگر کوئی شخص پہلی رکعت اور دوسری رکعت میں پانچ یا پہلی اور دوسری رکعت سات
تکبیرات کہے جیسے کہ بعض صحابہ کرام سے ایسا عمل منقول ہے تو اس کے بارے میں احمد
کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات
کے متعلق اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔" یعنی امام احمد اس بارے میں
وسعت کے قائل ہیں ؛ لہذا اگر کوئی شخص صحابہ کرام سے منقول عمل کے مطابق کسی اور
تعداد میں تکبیرات کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ امام احمد رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کا منہج ہے کہ ان کے ہاں اگر سلف میں کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہو اور اس کے متعلق کوئی قطعی نص موجود نہ ہو تو پھر سلف کے تمام طریقے اس بارے میں جائز ہوں گے؛ کیونکہ امام احمد صحابہ کرام کے موقف کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے، اس لیے امام احمد کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی فیصلہ کن نص صحابہ کے موقف پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہے تو پھر اس کا معاملہ وسعت والا ہو گا۔
یقینی بات ہے کہ جو منہج امام احمد رحمہ اللہ نے اپنایا ہے یہ اتحاد و اتفاق امت کیلیے افضل ترین طریقہ ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ ایسے مسائل جہاں پر اختلاف کی گنجائش ہے ان میں اختلاف کو تفرقہ اور پھوٹ کا سبب بنا لیتے ہیں، بلکہ دوسرے کو گمراہ تک کہہ دیتے ہیں حالانکہ وہ خود گمراہی پر ہوتے ہیں ۔
اس وقت یہ وبا بہت زیادہ پھیل چکی ہے؛ حالانکہ اس زمانے میں نوجوانوں کی طرف سے بیداری کی وجہ سے امید کی کرن پھوٹتی ہے؛ لیکن بسا اوقات اس تفرقے بازی اور پھوٹ کی وجہ سے یہ بیداری ختم ہو کر ایک لمبی غفلت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ اگر کسی شخص کا جزوی اور فروعی اجتہادی مسئلے میں اختلاف ہو جس کے بارے میں کوئی قطعی نص موجود نہیں ہے تو اس شخص سے لوگوں کو متنفر کرنا شروع کر دیا جاتا ہے، اور اس کے بارے میں زبان درازی کی جاتی ہے، یہ بہت بڑی آزمائش ہے، اور اس سے ان لوگوں کو خوشی ہوتی ہے جو نوجوانوں میں بیداری کی لہر نہیں دیکھنا چاہتے۔۔۔
لہذا اگر کوئی مسئلہ اجتہادی ہو ہمیں اپنے بھائی کے بارے میں عذر تلاش کرنا چاہیے۔۔۔
البتہ مفید ، با ہدف اور پر سکون بات چیت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔
میں یہ کہتا ہوں کہ: امام احمد کو اللہ
تعالی ان کے اس بہترین طریقے پر جزائے خیر سے نوازے کہ: اگر سلف کا کسی مسئلے کے
بارے میں اختلاف ہو اور اس بارے میں کوئی قطعی نص بھی نہ ہو تو پھر کسی بھی طریقے
پر عمل کیا جائے جائز ہے۔" انتہی
" الشرح الممتع "(5/135-138)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے صحابہ کرام سے ثابت عمل کے مطابق عمل کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہی جائیں اور دوسری رکعت میں پانچ ۔
سوم:
ہماری جد و جہد اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ جس سے اتحاد و اتفاق پھیلے؛ کیونکہ یہ دین کا بنیادی ترین عنصر ہے، لہذا اس بنیادی ترین عنصر کو کسی ایسی مستحب سنت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جائے گا جسے کوئی چھوڑ بھی دے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ با ہدف اور پر سکون علمی انداز میں بات چیت اور گفتگو کی جائے تا کہ ہم سنت کے قریب ترین موقف تک پہنچ سکیں، لیکن اگر اتفاق رائے قائم نہ ہو اور ہر ایک فریق یہی سمجھے کہ ان کا موقف سنت کے مطابق ہے اور ہر ایک کے پاس سلف صالحین ، تابعین کرام اور ائمہ کا عمل بھی ہو تو ایسی صورت میں مسلمانوں کو ایک ہی جگہ جمع ہو کر ایک ہی امام کے پیچھے باجماعت نماز عید ادا کرنی چاہیے، تفرقہ بازی میں مت پڑیں؛ کیونکہ اگر مسلمانوں میں پھوٹ پڑتی ہے تو یہ شیطان کی جانب سے ہے اور اس سے دشمنوں کو پھبتی کسنے کا موقع ملتا ہے۔
پہلے فتوی نمبر: (12585)
میں گزر چکا ہے کہ:
اگر امام نماز میں ایسا کوئی عمل کرتا ہے جو مقتدی کے ہاں جائز نہیں ہے تو جب تک
مسئلہ اجتہادی ہے اس وقت تک مقتدی کیلیے امام کی اقتدا کرنا واجب ہے۔
ویسے تصور کریں کہ اگر ان لوگوں کو جلیل القدر صحابہ کرام عبد اللہ بن مسعود، یا ابو موسی اشعری، یا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملے تو یہ کیا کریں گے؟! کیونکہ یہ تمام صحابہ کرام پہلی اور دوسری رکعت میں 3، 3 تکبیرات کہتے تھے۔
کیا ان عظیم الشان صحابہ کرام کے پیچھے نماز ادا نہیں کرینگے؟ حالانکہ صحابہ کرام ہی اس امت کے امام، گہرے علم اور انتہائی پارسا دلوں کے مالک ہیں!