"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے اپنے فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹ پر ماہ صیام سے متعلق کچھ تحریریں لکھنا شروع کی ہیں ، اس دوران مجھے دو مسائل کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے:
میں نے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے افطاری کے وقت طاق عدد میں کھجوریں کھانے کی ترغیب دلائی ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کتنی کھجوریں کھانی چاہییں؟ نیز ماہِ رمضان میں سحری اور افطاری کیلیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم عام طور پر کون کون سے کھانے اور مشروبات تناول کرتے تھے؟ میرے علم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو اور کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے، اس کے ساتھ ساتھ اور کیا چیز استعمال کرتے تھے؟ برائے مہربانی دلائل کے ساتھ ذکر کر دیں۔
الحمد للہ.
اول:
روزے دار کیلیے تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے، اگر تازہ کھجور نہ ملے تو پھر کھجور سے روزہ کھول لے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھول لے۔
یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے ثابت ہے، چنانچہ ابو داود: (2356) اور ترمذی: (696) نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے سے پہلے تازہ کھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے، اگر تازہ نہ ملتی تو کھجوروں سے روزہ افطار کرتے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چند گھونٹ بھر لیتے تھے"
اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تازہ کھجوروں ، یا کھجوروں یا پھر پانی سے بالترتیب روزہ افطار کرنے میں بہت ہی باریک فائدہ ہے؛ چونکہ روزہ رکھنے سے معدہ کھانے سے خالی رہتا ہے، چنانچہ جگر کو معدے میں کوئی ایسی چیز میسر نہیں آتی جسے وہ جذب کر کے اعضا کو توانائی پہنچائے، جبکہ میٹھا جگر تک سب سے زیادہ جلدی پہنچتا ہے اور جگر کے ہاں سب سے محبوب بھی ہے، خصوصاً اگر تازہ کھجور کی شکل میں ہو لہذا تازہ کھجور کو جگر فوری جذب کرتا ہے اور تازہ کھجور سے روزہ افطار کرنے پر جگر کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور پورے جسم میں توانائی فوری طور پر پہنچتی ہے، چنانچہ اگر تازہ کھجور دستیاب نہ ہو تو پھر کھجور اس کے بعد آتی ہے کیونکہ اس میں میٹھا اور بھر پور غذائیت ہوتی ہے، اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر پانی کے گھونٹ معدے کی حرارت ختم کر دیتے ہیں، اس کے بعد معدہ کھانا ہضم کرنے کیلیے بالکل تیار ہوتا ہے اور کھانا صحیح سے کھایا جاتا ہے" انتہی
"زاد المعاد" (4/ 287)
دوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزہ افطار کرتے ہوئے طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے، اس لیے مسلمان روزہ افطار کرتے ہوئے کھجوروں کی تعداد شمار کیے بغیر ہی ان سے روزہ افطار کر لے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طاق عدد میں کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرنا واجب بلکہ سنت بھی نہیں ہے کہ تین ، پانچ، یا سات کھجوریں کھائے، البتہ عید کے دن طاق عدد میں کھجوریں کھا کر عید گاہ جانا ثابت ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر کے دن عید نماز کیلیے جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے" جبکہ اس کے علاوہ کسی بھی حالت میں آپ کھجوریں کھاتے ہوئے طاق عدد کا خیال نہیں رکھتے تھے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (11/ 2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
البتہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم تین کھجوروں سے روزہ افطار کرنا پسند کرتے تھے، یا ایسی چیز سے روزہ افطار کرتے تھے جو آگ پر نہ پکائی گئی ہو"
اسے ابو یعلی: (3305) نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث ضعیف ہے، دیکھیں: "سلسلہ ضعیفہ" از البانی (966)
کچھ اہل علم ہر معاملے میں طاق عدد کو اچھا سمجھتے ہیں، جیسے کہ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا ہر چیز کو استعمال کرتے ہوئے طاق عدد کا خیال کیا جائے گا؟ مثال کے طور پر قہوہ پیتے ہوئے بھی؟ یا صرف ان چیزوں کے متعلق طاق عدد کا خیال کیا جائے گا جن کے بار ے میں واضح صراحت موجود ہے؟"
تو شیخ نے جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
"تمام اقوال و افعال میں طاق عدد کا خیال کرنا مسنون ہے" انتہی
اسی طرح شیخ عبد الکریم خضیر حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
کیا کھانے پینے میں بھی طاق عدد کا خیال رکھ کر اللہ کی بندگی ہو سکتی ہے؟
تو انہوں نے جواب:
"جی ہاں! طاق عدد کا خیال رکھ کر بھی اللہ کی بندگی ہو سکتی ہے، چنانچہ کھجوریں کھائے تو تین، پانچ، یا سات یعنی طاق عدد میں کھائے؛ کیونکہ اللہ تعالی طاق عدد پسند فرماتا ہے"انتہی
اسی طرح مصنف عبد الرزاق: (5/498) میں معمر، ایوب سے بیان کرتے ہیں وہ ابن سیرین سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی وتر ہے اور وتر پسند فرماتا ہے) [حدیث کے راوی] ایوب کہتے ہیں کہ: ابن سیرین ہر چیز میں طاق عدد پسند کرتے تھے، حتی کہ کھانے پینے میں بھی طاق عدد کا خیال کرتے"
اس اثر کی سند صحیح ہے۔
ان شاء اللہ اس بارے میں وسعت ہے، البتہ ہمارے علم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ آپ افطاری کیلیے کھجوریں تناول فرماتے ہوئے طاق عدد کا خیال رکھتے تھے، علمائے کرام نے ایسی بات اگر کی ہے تو وہ ان کا اپنا اجتہاد ہے۔
سوم:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا سحری اور افطاری کیلیے طرزِ زندگی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی تھا، آپ اس میں اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اسراف یا کنجوسی سے کام نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہدف کھانا پینا ہوتا تھا، بلکہ آپ اتنا ہی تناول فرماتے تھے کہ جس سے آپ کی کمر سیدھی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کھانے پینے میں کوئی ایسی عادت نہیں تھی جس کی آپ پابندی کرتے ہوں، یا لمبی چوڑی تفصیلات بھی نہیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت حال یہ ہوتی تھی کہ اگر پسند کا کھانا مل جاتا تو کھا لیتے وگرنہ خاموش رہتے، اور اگر پسند کا کھانا نہ ملتا تو کھانا نہ کھاتے بلکہ بسا اوقات روزہ رکھ لیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کھانے میں کیڑے نہیں نکالے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم گوشت، روٹی، زیتون کا تیل، شہد، دودھ اور گھر میں میسر دیگر چیزیں تناول فرماتے تھے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل خانہ پورا مہینہ صرف کھجور اور پانی پر گزار فرماتے تھے۔
کبھی یہ صورت حال بھی ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مہمان کو لیکر تمام بیویوں کے گھر جاتے لیکن سب کے پاس صرف کھجور اور پانی ہی میسر ہوتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مقصد اور ہدف آخرت اور دین کی آبیاری تھی۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (115801) کا مطالعہ کریں۔
مطلب یہ ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں جو کچھ میسر ہوتا تھا، تناول فرما لیتے تھے، اسی طرح آپ کے صحابہ کرام یا پڑوسیوں کی جانب سے جو کچھ ملتا کھا لیتے تھے، آپ نے اپنے لیے کوئی مخصوص کھانا مقرر نہیں کیا ہوا تھا، البتہ آپ افطاری کے وقت تازہ کھجوریں یا خشک کھجوریں استعمال کرتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی چیز میسر نہ ہوتی تو پانی سے روزہ افطار کر لیتے تھے، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سحری بھی معمولی مقدار میں ہوتی تھی کہ آپ کی کمر سیدھی ہو سکے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم سحری کیلیے کوئی مخصوص کھانا بھی تناول نہیں فرماتے تھے، تاہم آپ نے کھجور کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: (مومن کی بہترین سحری کھجور ہے)
ابو داود (2345) اسے البانی نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم.