"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
وضوء كرنے والى جگہ ليٹرين كے ساتھ ملحق ہے، اور ميں وہاں بلند آواز سے بسم اللہ نہيں پڑھنا چاہتا، تو كيا دل ميں بسم اللہ پڑھنى جائز ہے ؟
الحمد للہ.
اللہ تعالى كے نام كى تعظيم كرتے ہوئے اس نجس جگہ اور شيطانى ٹھكانے ميں جہاں قضائے حاجت كى جاتى ہے اللہ كا نام لينا مكروہ ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قضائے حاجت كى حالت ميں كلام كرنى اور اللہ كا ذكر كرنا مكروہ ہے چاہے قضائے حاجت صحراء اور كھلى جگہ ميں ہو يا گھروں ميں، اور اس ميں سب كلام اور اذكار برابر ہيں، ليكن ضرورت كى كلام كى جا سكتى ہے حتى كہ ہمارے اصحاب كا كہنا ہے:
جب چھينك مارے تو الحمد للہ نہ كہے، اور نہ ہى چھينك مارنے والے كو جوابا دعا دى جائيگى، اور نہ ہى سلام كا جواب ديا جائيگا، اور نہ ہى اذان كا جواب، اور سلام كرنے والا كوتاہى كرنے كى بنا پر جواب كا مستحق نہيں، يہ سب كلام مكروہ ہے اور يہ كراہت تنزيہى ہے نہ كہ كراہت تحريمى، اس ليے اگر كسى نے چھينك مارى اور دل ميں الحمد اللہ كہہ ليا اور اپنى زبان كو حركت نہ دى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور جماع كى حالت ميں بھى اسى طرح كرے.
ہميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت بيان كى گئى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پيشاب كر رہے تھے كہ ايك شخص قريب سے گزرا اور آپ كو سلام كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سلام كا جواب نہ ديا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 370 ).
اور مھاجر بن قنفذ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو وہ پيشاب كر رہے تھے اور ميں نے انہيں سلام كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب نہ ديا حتى كہ وضوء كيا اور پھر مجھ سے معذرت كى اور فرمانے لگے:
ميں نے بغير طہارت كى حالت ميں اللہ كا ذكر كرنا پسند نہيں كيا "
يا يہ فرمايا: " طہارت كى بغير "
يہ حديث صحيح ہے اسے ابو داود اور نسائى اور ابن ماجہ نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: كتاب الاذكار للنووى ( 21 - 22 ).
اس بنا پر جب وضوء كرنے والى جگہ ليٹرين ـ جو كہ قضائے حاجت كے ليے بنائى گئى ہے نہ كہ صرف غسل كے ليے ـ ميں ہو تو يہاں اللہ كا ذكر كرنا مكروہ ہے، باوجود اس كے كہ بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے، اس ليے بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ وہ دل ميں بسم اللہ پڑھ لے ليكن زبان سے الفاظ كى ادائيگى نہ كرے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر حمام ميں ہو تو امام احمد كہتے ہيں: جب آدمى چھينك مارے تو دل ميں الحمد للہ كہے، تو اس روايت سے يہ نكالا جا سكتا ہے كہ وہ بسم اللہ دل ميں پڑھ لے " اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 130 ).
اور بعض دوسرے علماء كرام كا كہنا ہے: بسم اللہ كى مشروعيت غالب ہے تو اس طرح وہ كہتے ہيں كہ وہ زبان سے ادائيگى كرے، تو اس وقت كراہت نہيں ہوگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ضرورت پيش آئے تو ليٹرين كے اندر وضوء كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور وہ وضوء كے شروع ميں بسم اللہ پڑھ لے، كيونكہ بعض اہل علم كے ہاں بسم اللہ پڑھنا ضرورى اور واجب ہے، اور اكثر كے ہاں تاكيدى عمل ہے، اس ليے وہ بسم اللہ پڑھ لے تو كراہت زائل ہو جائيگى كيونكہ بسم اللہ پڑھنے كى ضرورت ہونے كے وقت كراہت زائل ہو جائيگى، اور پھر انسان كو وضوء كى ابتداء ميں بسم اللہ پڑھنے كا حكم ہے، لہذا وہ اپنا وضوء مكمل كرے " اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 28 ).
اور مستقل فتاوى اللجنۃ كے فتاوى جات ميں درج ہے:
باتھ جہاں قضائے حاجت كى جاتى ہو وہاں اللہ تعالى كے نام كا احترام كرتے ہوئے زبان كے ساتھ بسم اللہ پڑھنا مكروہ ہے، ليكن اس كے ليے وضوء كى ابتداء ميں بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے، كيونكہ اكثر اہل علم كے ہاں دعا كے ساتھ بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 94 ).
اور اگر وضوء والى جگہ ليٹرين سے باہر ہو ـ چاہے وہ اس كے ساتھ ملى ہوئى ہو ـ تو وضوء كرنے والے كے ليے بسم اللہ زبان كے ساتھ الفاظ ميں ادا كرنا مشروع ہے، اور اس حالت ميں مكروہ نہيں، كيونكہ يہ ليٹرين كے اندر نہيں ہے.
واللہ اعلم .