"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ: "اللہ تعالی اس رات میں رزق اور لوگوں کے دیگر معاملات لکھ دیتا ہے اور پھر ان صحیفوں کو فرشتے لے جاتے ہیں اور ایک لیلۃ القدر سے دوسری لیلۃ القدر تک [اس میں معلومات ہوتی ہیں]، اللہ تعالی اس رات میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے کی سالانہ تفصیلات لکھ دیتا ہے" تو کیا جب فرشتے ان صحیفوں کو لے جاتے ہیں تو ان میں درج شدہ معلومات دیکھتے بھی ہیں؟ اور کیا فرشتوں کو پورے سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے؟ اور کیا یہ فرشتوں کیلیے عطائی علم غیب ہوتا ہے یا کچھ اور؟
الحمد للہ.
فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: بیشک ہم نے اس [قرآن ]کو بابرکت رات میں اتارا ہے، بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں، [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان: 3- 4] مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو لوح محفوظ میں سے آئندہ ایک سال کے معاملات لکھنے کا حکم دیتا ہے، یہ بات کچھ سلف صالحین سے بھی منقول ہے، اور مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (18527) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آیت: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) کا مطلب یہ ہے کہ: "لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ میں سے آئندہ سال کے امور لکھ لیے جاتے ہیں جس میں رزق، اموات، ولادت، بارش وغیرہ سمیت تمام امور ہوتے ہیں حتی کہ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس سال فلاں فلاں شخص حج کریگا"
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ حدیث نمبر: (3678) میں روایت کر کے اسے صحیح بھی کہتے ہیں کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "تمہیں کوئی شخص بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر آئے گا حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھا جا چکا ہے، پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں: ( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) یعنی: لیلۃ القدر میں آئندہ لیلۃ القدر تک دنیاوی امور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے"
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آئندہ ایک سال تک کے معاملات محرر فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، اس میں واقع ہونے والی اموات اور دیے جانے والے رزق کی وغیرہ ہر چیز کی تفصیلات دے دی جاتی ہیں، اس آیت کا یہی مفہوم ابن عمر ، ابو مالک، مجاہد، ضحاک اور دیگر متعدد سلف صالحین سے منقول ہے، اس آیت میں " حَكِيمٍ " کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ معاملات محکم ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی" انتہی
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: (7/246) اسی سے ملتی جلتی بات الطاہر ابن عاشور نے "التحرير والتنوير" (6/422) شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ نے اپنے "فتاوی" (20/344) میں بھی لکھی ہے۔
دوم:
غیب کے معاملات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے، ان [دیگروں] کو تو اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کا ہی علم نہیں ہے![النمل:65]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ: تمام مخلوقات کو سکھانے کیلیے بتلا دیں کہ: اللہ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا؛ کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالی کی امتیازی صفت ہے، اس میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں " انتہی
"تفسیر ابن کثیر" (6 /207)
البتہ اتنا ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے جسے چاہے غیب کی کچھ چیزوں پر مطلع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا [26] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا )
ترجمہ: وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن:26-27]
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"غیبی چیزوں کے بارے میں علم رکھنا صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے، چنانچہ غیبی چیزوں کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، چاہے کوئی جن ہو یا انسان، البتہ اللہ تعالی جسے چاہے کسی فرشتے یا نبی کو وحی کر کے بتلا سکتا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /346)
پورے سال میں رونما ہونے والے معاملات کا محرر فرشتوں کی جانب سے لکھنا اس بات کا شاہد ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے معاملات سے متعلق مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے تفصیلات لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ فرشتے اس رات میں اموات اور رزق سمیت دیگر تمام ایسے امور جو آئندہ سال میں رونما ہونے ہیں ان سب کو لکھ لیتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں واضح ہے:
(فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان: 4]
اسی طرح :
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ
ترجمہ: روح اور فرشتے اس رات اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں [القدر : 4] مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال میں جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ فرشتوں کیلیے عیاں کر دیا جاتا ہے اور پھر ہر فرشتے کی ذمہ داری کے مطابق اسے کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، نیز یہ سب معاملات اللہ تعالی کے علم اور تقدیر میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں" انتہی
"شرح مسلم" از نووی رحمہ اللہ: (8/ 57)
سوم:
کچھ علمائے کرام نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب فرشتے آئندہ سال میں ہونے والے معاملات لکھ لیتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں حکم دیتا ہے کہ ہر فرشتے کو اس کے متعلقہ امور تحریری شکل میں سپرد کر دیے جائیں ، تاہم انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
جیسے کہ شیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: اللہ تعالی ہر سال لیلۃ القدر میں فرشتوں کیلیے آئندہ لیلۃ القدر تک کے تمام معاملات واضح کر دیتا ہے نیز فرشتوں کو یہ تمام امور تحریری شکل میں دے دیے جاتے ہیں۔
اس تحریر میں اموات، رزق، ناداری و مالداری، خشک سالی و بارشیں، صحت و بیماری، جنگیں اور زلزلے الغرض آئندہ سال میں کچھ بھی ہونے والا ہے سب کچھ واضح کر دیا جاتا ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر "الکشاف" میں کہتے ہیں:
" يُفْرَقُ" کا معنی ہے تفصیل سے لکھ دیا جاتا ہے، " كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ" سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کا رزق، اموات، اور آئندہ لیلۃ القدر تک جو بھی امور ہیں سب تحریر کر دیے جاتے ہیں۔
آگے چل کر انہوں نے لکھا کہ: رزق کے متعلق صحیفوں کا نسخہ میکائیل کو دے دیا جاتا ہے، جنگوں، زلزلوں، بجلی گرجنے اور دھنسائے جانے سے متعلق نسخہ جبرائیل کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح اعمال کا نسخہ اسماعیل کو جو کہ آسمانِ دنیا کا ذمہ دار ہے، وہ بہت بڑا فرشتہ ہے، مصیبتوں کا نسخہ ملک الموت کے سپرد کر دیا جاتا ہے"
ہمارا مقصد آیت کا مطلب واضح کرنا ہے مذکورہ فرشتوں کو تھمائے جانے والے نسخوں کی صحیح معلومات دینا مقصد نہیں ہے؛ کیونکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "أضواء البيان" (7/271).