"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
درج ذیل عبارتوں میں سے کون سی عبارت طلاقِ کنایہ ہو سکتی ہے؟
اللہ تعالی تمہارے لیے اپنی رحمت وسیع کر دے۔
اسی طرح: یا اللہ! مجھے اس سے بہتر عطا فرما، اور اُسے مجھ سے بہتر ساتھی عطا فرما۔
الحمد للہ.
اول:
طلاقِ کنایہ میں ضابطہ یہ ہے کہ: کوئی بھی ایسا لفظ جس میں طلاق کے ساتھ کوئی اور معنی بھی پایا جاتا ہو، مثلاً: تم اپنے گھر چلی جاؤ۔ ہمارا تعلق اب ختم ہو چکا، وغیرہ
جیسے کہ " حاشية البجيرمي على الخطيب " (3/491) میں ہے کہ:
"طلاق کے لیے کنایہ کے الفاظ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جن میں طلاق کے ساتھ کوئی اور مفہوم بھی پایا جائے، اس کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ: ایسے الفاظ بولے جائیں جو جدائی کی علامت ہوں، لیکن ان الفاظ کو شریعت یا عرف میں طلاق کے طور پر استعمال نہ کیا جاتا ہو۔" ختم شد
اسی طرح " الموسوعة الفقهية " (29/26) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ طلاق کے لیے کنایہ وہ الفاظ ہوں گے جو : بنیادی طور پر طلاق کے لیے وضع نہ کیے گئے ہوں، اور ان الفاظ میں طلاق کے ساتھ کسی اور چیز کے معنی بھی شامل ہوں، اور اگر ان الفاظ میں طلاق کا مفہوم پایا ہی نہ جاتا ہو ، اور بے معنی سی بات ہو تو اس سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وہ تمام الفاظ جن میں جدائی کا مفہوم پایا جائے تو وہ کنایہ کہلاتے ہیں۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (13/70)
دوم:
کنایہ کے الفاظ سے طلاق دو شرطوں کے بغیر واقع نہیں ہوتی: پہلی شرط یہ ہے کہ کنایہ کے الفاظ بولتے ہوئے طلاق دینے کی نیت ہو، اور ایسے الفاظ طلاق کے لیے کنایہ کے طور پر بولے جنہیں واقعی طلاق کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ایسا لفظ بولتا ہے جو شرعاً یا عرفاً کسی بھی طرح سے طلاق کے مفہوم میں نہیں لیا جاتا، اور وہ نیت یہ کرتا ہے کہ میں طلاق دے رہا ہو، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔
جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب تک طلاقِ کنایہ کے الفاظ بولتے ہوئے طلاق کی نیت نہ ہو طلاق نہیں ہو گی، اسی طرح الفاظ ایسے بولے جو طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہوں، چنانچہ اگر دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط رہ جائے تو اس سے نہ تو طلاق ہو گی اور نہ ہی غلام آزاد ہو گا۔
الفاظ کو صریح اور کنایہ دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ، بنیادی طور پر یہ تقسیم بالکل صحیح ہے، لیکن افراد، وقت اور علاقے کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، لہذا کسی بھی خاص لفظ کے لیے کوئی خاص حکم نہیں لگایا جا سکتا؛ چنانچہ کوئی لفظ ایسا ہو سکتا ہے جو کسی قبیلے کے ہاں صریح طلاق ہو اور کسی کے ہاں کنایہ ہو، یا کسی وقت یا جگہ میں وہ لفظ صریح ہو جبکہ کسی اور زمانے اور علاقے میں وہ کنایہ ہو۔
زمینی حقائق اور مشاہدات اس چیز کی تائید کرتے ہیں، آپ عربی زبان کے لفظ {السَّرَاحِ } کو ہی لے لیں، اب اس لفظ کو کوئی بھی طلاق کے لیے چاہے کنایہ ہو یا صریح استعمال نہیں کرتا، لہذا اب کوئی شخص یہ لفظ بول دے تو اب اس چیز کی گنجائش نہیں ہے کہ اس کی بیوی کو طلاق ہو گئی ہے چاہے وہ طلاق کی نیت کرے یا نہ کرے۔" ختم شد
" زاد المعاد " (5/291)
اس بنا پر: "اللہ تعالی تمہارے لیے اپنی رحمت وسیع کر دے۔ "اس میں طلاق کا مفہوم نہیں پایا جاتا، نہ تو عرف میں یہ طلاق ہے نہ ہی شریعت میں۔ اس لیے یہ الفاظ طلاقِ کنایہ میں آتے ہی نہیں ہیں۔
جبکہ یہ کہنا کہ: "یا اللہ! مجھے اس سے بہتر عطا فرما، اور اسے مجھ سے بہتر ساتھی عطا فرما۔" کے بارے میں یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایسی دعا جس سے مراد طلاق ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں طلاق کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔
چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس نے اپنی اہلیہ سے کہا: "اللہ تعالی میرے اور تمہارے درمیان دنیا و آخرت میں جدائی ڈال دے" تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: "اگر تو وہ صرف دعا کر رہا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ طلاق نہیں ہے۔"
دیکھیں: " مسائل أبي داود للإمام أحمد" (ص239) ، "الإنصاف" (8/478)
امام احمد رحمہ اللہ کے اس موقف پر ابن مفلح رحمہ اللہ نے " الفروع" (9/38) میں بایں الفاظ تبصرہ کیا کہ:
"امام احمد رحمہ اللہ نے دعا کی نیت کی صورت میں اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا، تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس کی نیت طلاق یا آزاد کر دینے کی ہے تو پھر یہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے؛ کیونکہ جدائی صریح لفظوں میں بھی ہوتی ہے اور کنایہ کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔۔۔" پھر اسی مسئلے سے ملتے جلتے مسائل ذکر کیے اور پھر کہا:
"ان تینوں مسائل میں حکم یکساں ہی ہے، اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ ہر مسئلے میں دو موقف ہیں کہ: کیا نیت کے تعین کے لیے قرینہ پایا جائے تو اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا، یا صرف حقیقی نیت ہی معتبر ہو گی؟" ختم شد
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ : " اللہ تعالی میرے اور تمہارے درمیان دنیا و آخرت میں جدائی ڈال دے ۔" کہتے ہوئے دعا کرنا طلاقِ کنایہ میں سے ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے طلاقِ کنایہ کے بارے میں دو روایات منقول ہیں کہ کیا طلاقِ کنایہ میں نیت معتبر ہو گی یا صرف قرینہ ہی کافی ہو گا؟
اس حوالے سے ہماری ویب سائٹ پر متعدد سوالات میں یہ بات گزر چکی ہے کہ طلاقِ کنایہ میں نیت نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، اور صرف قرینہ بھی کافی نہیں ہوتا۔
اس بنا پر: سوال میں مذکور دعا: " یا اللہ! مجھے اس سے بہتر عطا فرما، اور اسے مجھ سے بہتر ساتھی عطا فرما۔" طلاقِ کنایہ ہے، چنانچہ اگر خاوند یہ الفاظ بولتے ہوئے طلاق کی نیت کرتا ہے تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر طلاق کی نیت نہیں کرتا تو پھر طلاق نہیں ہو گی۔
واللہ اعلم