"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
لیکن انسان پریہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ کو شبھات کی آماجگاہ نہ بنا لے ، یا پھر اس کا کام ہی شبھات اور تعارضات کوتلاش کرنا بن جاۓ اور فائدہ مندعلم کی طلب ہی نہ کرے ، اور اسی طرح مسلمان کو شریعت کی محکم امور کی معرفت ہونی چاہيۓ تاکہ وہ متشابہ امور کوان کی طرف لوٹا سکے ۔
رہا وہ مسئلہ جوآپ نے سوال میں پوچھا ہے تو یہ معلوم ہونا چاہيۓ کہ شرائع کے مختلف ہوجانے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں لیکن اصول اورعقائد نہیں بدلتے جو کہ سب شریعتوں میں ثابت ہیں ۔
تواگر سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں مجسمے بنانے جائز تھے توہماری شریعت میں یہ حرام ہیں ، اوراگر یوسف علیہ السلام کی شریعت میں سجدہ تعظیم جائز تھا توہماری شریعت میں حرام ہے ، اورجب معرکوں میں حاصل ہونے والی غنیمت ہم سے پہلے لوگوں پرحرام تھی توہمارے لیے حلال ہیں ۔
اور اگرہمارے علاوہ دوسری امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا توہمارا قبلہ بیت اللہ ہے ، اور اسی طرح اور اشیاء بھی توآدم علیہ السلام کی شریعت میں بہن بھائيوں کا آپس میں نکاح وشادی کرنا جائز تھا لیکن اس کے بعدوالی سب شریعتوں میں حرام ، ذیل میں ہم اس مسئلہ کی وضاحت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی سے پیش کرتے ہیں ۔
حافظ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے لیے یہ مشروع کیا تھا کہ وہ اپنی اولاد میں سے بیٹی اور بیٹے کی آپس میں شادی کردیں اس لیے یہ حالات کی ضرورت تھی ، لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے ہردفع ایک بیٹا اورایک بیٹی اکٹھے پیدا ہوتے تھے تواس طرح وہ ان کے ساتھ شادی کرتے جوان کے علاوہ دوسری دفعہ پیدا ہوتے ۔
سدی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : کہ ابومالک ، ابوصالح ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ، مرۃ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اوردوسر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے :
آدم علیہ السلام جو بھی بیٹا ہوتا تواس کے ساتھ بیٹی ضرور پیدا ہوتی تواس بچی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ دوسرے بچے کے ساتھ پیدا ہونے والی بچی سے شادی کرتا ۔ تفسیر ابن کثير سورۃ المائدۃ آیۃ نمبر ( 27 ) ۔
میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورآپ کوایمان اور علم نافع سے نوازے ، و صلی اللہ علی نبینا محمد ۔
واللہ تعالی اعلم .