"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
الحمدللہاگرکسی شخص کوشادی کی ضرورت ہواورشادی لیٹ کرنے میں مشقت پیدا ہوتی ہوتواس حالت میں شادی مقدم کی جائے گی ۔
لیکن جب وہ شادی کا محتاج نہیں تواس حالت میں فریضہ حج کی ادائیگی مقدم ہوگی ۔
ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہيں :
( اگروہ نکاح کا محتاج ہو اوراسے اپنے آپ پرمشقت میں پڑنے کا خدشہ ہو توشادی مقدم کرے کیونکہ یہ اس پرواجب ہے اوراس کے بغیر کوئي چارہ نہیں کیونکہ یہ نفقہ اورخرچہ کی مانند ہے ، لیکن اگریہ خدشہ نہ ہو توحج مقدم کرے گا کیونکہ نکاح نفلی ہے لھذا فريضہ حج پراسے مقدم نہيں کیا جائے گا )
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 5 / 12 ) اورالمجموع للنوی بھی دیکھیں ( 7 / 71 ) ۔
اورشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گیا :
کیاصاحب استطاعت شخص کے لیے حج کوشادی کے بعد تک کے لیے مؤخرکرنا جائز ہے ؟ اس لیے کہ اس دورمیں نوجوان نسل کوبہت خواہشات اورچھوٹے بڑے فتنے درپیش ہیں ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس میں کوئي شک وشبہ نہيں کہ شھوت وخواہش کے ہوتے ہوئے انسان کے لیے حج سے زيادہ شادی کرنا اولی اوربہتر ہے ، کیونکہ جب انسان کوبہت زيادہ خواہش ہوتواس وقت اس کا شادی کرنا اس کی ضروریات زندگی میں شامل ہوتا ہے لھذا یہ کھانے پینے کی طرح ہوگا ۔
لھذا جوکوئي بھی شادی کرنے کا محتاج ہواوراس کے پاس مال بھی نہ ہو اسے بھی اسی طرح زکاۃ دی جائے گی تا کہ وہ شادی کرسکے ،جس طرح ایک فقیر اورمحتاج شخص کوکھانے پینے اورلباس پہننے کےلیے زکاۃ دی جاتی ہے ۔
تواس بناپرہم یہ کہيں گے کہ : جب کوئي شخص شادی اورنکاح کرنے کا محتاج ہوتواسے شادی حج پرمقدم کرنی چاہیے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فریضہ حج کےوجوب کے لیے استطاعت کی شرط لگاتے ہوئے فرمایا ہے :
اورلوگوں پراللہ تعالی کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جوبھی وہاں تک جانے کی طاقت واستطاعت رکھے آل عمران ( 97 ) ۔
لیکن وہ شخص جونوجوان بھی ہو اوراس سال یا آئندہ برس اس کے لیے شادی کرنا بھی اہم نہ ہو توایسے شخص کوحج مقدم کرنا چاہیے ، کیونکہ ایسی حالت میں نکاح کومقدم کرنے کی کوئي ضرورت نہيں ہے ۔ اھـ
دیھکیں : فتاوی منار الاسلام ( 2 / 375 ) ۔
واللہ اعلم .