"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ غنڈا گردی کی تمام اقسام کا حکم بیان کریں، اور غنڈوں کے بارے میں وارد وعید بھی بتلائیں، اور انہیں نصیحت بھی کریں۔
الحمد للہ.
غنڈا گردی سے مراد دوسروں پر مسلسل زبانی اور جسمانی جارحیت لی جاتی ہے، عام طور پر یہ بری عادت نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں میں پائی جاتی ہے جسے یہ اپنے ہم عمر یا اپنے سے چھوٹوں پر استعمال کرتے ہیں، جارحیت کرنے والا شخص اپنی جسمانی قوت، اور جتھے کی بدولت غنڈا گردی کرتا ہے، اور دوسری طرف مظلوم شخص کی کمزوری یا تنہائی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ یہ چیز اسکولوں اور رہائشی کالونیوں میں بہت زیادہ پھیل رہی ہے، عام طور پر اس کی وجہ سے مظلوم شخص کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ بسا اوقات مظلوم شخص کی کوئی رہنمائی اور ڈھارس باندھنے والا نہ ہو تو خود کشی کی جانب بھی مائل ہو جاتا ہے۔
اس سماجی خرابی اور برائی کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالی سے مدد طلب کی جائے، اور اس کے بعد اس مسئلے سے جڑے تمام افراد کو یکجا کریں؛ خصوصاً :
جارحیت میں ملوث شخص کا خاندان:
چنانچہ غنڈا گردی کے شکار خاندان کے افراد جارحیت میں ملوث شخص کے خاندان سے ملیں، اور نہیں تعلیمات الہیہ سے روشناس کریں، اور ان سے مطالبہ کریں کہ اپنے بچوں کا خیال کریں اور انہیں بری عادات سے دور رکھیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو جہنم سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، جہنم پر سنگ دل اور سنگ جان فرشتے مقرر ہیں، وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں۔[التحریم: 6]
الشیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی اہلیہ، اولاد وغیرہ اہل خانہ کو برائی سے روکے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ۔ [التحریم: 6]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اور تم میں سے ہر کوئی اپنی ذمہ داری کے بارے میں جوابدہ ہے۔) الحدیث" ختم شد
"أضواء البيان" (2 / 209)
ان کے گھر والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرائیں کہ اگر انہوں نے بچوں کا پورا خیال نہ کیا، ان پر توجہ نہ دی اور ظلم سے انہیں نہ روکا تو اللہ تعالی کی پکڑ کا سامنا کرنا پڑے گا؛ کیونکہ بچوں کو شتر بے مہار چھوڑے رکھنا، اور انہیں اس قسم کی منفی جارحانہ سرگرمیوں سے نہ روکنا بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق قابل گرفت کوتاہی ہے۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبید اللہ بن زیاد نے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی مرض الموت میں عیادت کی، تو سیدنا معقل نے عبید اللہ سے کہا: میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس بندے کو بھی اللہ تعالی رعایا کا ذمہ دار بنائے، لیکن وہ ان کی بھلائی کے لیے بھر پور کوشش نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (7150) اور مسلم : (142)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح انہیں اس بات سے بھی خبردار کر دیں کہ اگر اپنے بچوں کی جانب سے ہونے والی زیادتی اور ظلم کو اگر وہ نہیں روکتے تو اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں؛ کیونکہ قرآن و سنت اور لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات تو مسلمہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
اس لیے تمام والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں کے دل و دماغ میں دینی روح بیدار کریں، ان کی صحیح عقیدے پر تربیت کریں، اخلاق حسنہ اپنائیں، باہمی برداشت کی عادت ڈالیں، دوسروں کا احترام کریں، ادب سے پیش آئیں اور دوسروں سے محبت کرتے ہوئے ان کی مدد کے لیے اپنی خدمات پیش کریں۔
مظلوم کا خاندان:
ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اپنے بچے کو تنہا مت چھوڑیں، بچے کو در پیش مسائل پر پوری توجہ دیں، اور یہ نہ کہیں کہ: اپنے مسائل کا حل خود نکالنا سیکھے! دوسروں پر بوجھ نہ بنے!۔ بلکہ اس کی مکمل رہنمائی کریں۔
اس حوالے سے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا: چنانچہ لوگوں پر مقرر کیا جانے والا امیر لوگوں کا ذمہ دار ہے، اور اس سے لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح گھر کا سربراہ مرد ہے، اور اس سے اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے، اور اس سے انہی کے بارے جواب دینا ہو گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے چنانچہ وہ اسی کے متعلق جوابدہ ہے۔ توجہ سے سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (2554) اور مسلم : (1829)نے روایت کیا ہے۔
جارحیت کے شکار بچوں کو اس وقت خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جب خاموش اور تنہائی پسند ہو، ایسے بچے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کسی کے سامنے نہیں رکھتے اور اندر ہی اندر جلتے رہتے ہیں، ایسی صورت میں والدین پر لازمی ہے کہ وہ والدین کے دائرے سے نکل کر ان کے دوست بننے کی کوشش کریں، تا کہ بچے ان سے زیادہ مانوس ہوں اور اپنے دل کے خیالات آپ کے سامنے رکھیں اور مسائل آپ ہی سے حل کروائیں۔
اسی طرح ایسے بچوں کے والدین بچے کے اسکول میں بھی آتے جاتے رہا کریں، اور اپنے بچے کی کارکردگی کے متعلق پوچھیں، یہاں یہ بہت ضروری ہے کہ بچوں کے دوست ایسے چنیں جو اچھے ہوں، اور بچوں کے دوستوں کو وقتاً فوقتا گھر میں بھی بلائیں، تا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر جائز کھیل کھیلیں، یا دیگر مفید سرگرمیوں میں اکٹھے وقت گزاریں، یا یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کا ذمیہ کام اکٹھے بیٹھ کر کریں، اس طرح سے بچے میں خاموشی کا مزاج ختم ہو جائے گا، اور اسی طرح دوستوں کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہو گا، جو کہ آپ کے بچے کو غنڈہ گردی سے تحفظ بھی فراہم کریں گے۔
پھر بچوں کو ذاتی دفاع کی تربیت بھی دیں، اس سے ان کی جسمانی اور نفسیاتی قوت میں اضافہ ہو گا، اور وہ اپنے آپ پر اعتماد بھی کریں گے، جس کی وجہ سے غنڈے بھی ان سے دور رہیں گے، ذاتی دفاع کی تربیت دیتے ہوئے یہ بات بھی بچوں کو اچھی طرح سمجھائی جائے کہ اس تربیت کا مقصد کسی کے خلاف جارحیت نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا جسم مضبوط ہو اور آپ مکمل طور پر توانا رہیں، اور اگر کبھی ذاتی دفاع کی ضرورت پڑے تو اپنا دفاع بھی کر سکیں۔
اسی طرح مساجد کے ائمہ کرام، خطبا حضرات، اور ٹی وی چینلز سے بھی رابطہ کر کے اس موضوع کو زیر بحث لانے کی تجویز دی جائے کہ اس موضوع پر گفتگو کی اشد ضرورت ہے، لوگوں میں آگہی پیدا کریں کہ زبانی یا جسمانی کسی بھی قسم کی اذیت لوگوں کو دینا جائز نہیں ہے، یہ بھی واضح کریں کہ جو شخص بھی ایسی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو تو آخرت میں سزا کا مستحق ہو گا، اور دنیا میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پکڑ میں آئیں گے۔ اس موضوع کے دیگر پہلو بھی اجاگر کریں۔
اسکول یا محلے کے دیگر بچوں کے سرپرست حضرات:
ان کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں بھی اس مسئلے کی سنگینی کے متعلق آگاہ کرنا اچھا ہو گا، انہیں بھی یہ مشورہ دیا جائے کہ بچوں کو مظلوم کی مدد کی ترغیب دیں، اور ظالم کے ہاتھ روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، آنکھوں کے سامنے ہونے والے منفی رویوں پر محض خاموش تماشائی مت بنیں؛ کیونکہ اس عادت کو اسلام یکسر تسلیم نہیں کرتا۔
جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم) تو اس پر ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے مظلوم بھائی کی مدد تو کر سکتا ہوں، لیکن ظالم بھائی کی مدد کیسے کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اسے روکو اور ظلم کرنے سے منع کرو، یہی اس کی مدد ہے۔) بخاری: (6952)
ایسے ہی سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے روکا ہے: مریض کی عیادت کریں، جنازوں کی تدفین کے لیے ساتھ چلیں، چھینک لے کر الحمدللہ کہنے والے کا جواب دیں، سلام کا جواب دیں، مظلوم کی مدد کریں، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کریں اور قسم ڈالنے والے کی قسم پوری کریں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2445) اور مسلم : (2066)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح اسکول کی انتظامیہ سے بھی رابطہ کر کے اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کے بعد حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے جس کی بدولت یہ مسئلہ کم یا بالکل ختم ہو جائے۔
واللہ اعلم