"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کل رات میں نے عزم کیا کہ میں اپنے قضا روزوں کی قضا دوں گی، میں پہلے ہی روزوں کی قضا میں کافی لیٹ ہو چکی ہوں، تاہم میں نے رات کو نیت کی کہ میں اٹھ کر سحری کروں گی اور پھر روزہ رکھوں گی، لیکن میں سوئی تو فجر کی نماز کے وقت ہی آنکھ کھلی، میں سحری نہ کر پائی، تو کیا میرے لیے یہ لازم تھا کہ میں روزہ مکمل کروں؟ یا میرا روزہ تھا نہیں اس لیے میں کھا پی سکتی ہوں؟ اور اگر روزہ رکھ لوں تو کیا یہ میرے روزے کی قضا صحیح ہو گی؟ کیونکہ میں نے روزے کی نیت کرتے ہوئے اسے سحری کرنے کے ساتھ مقید کیا تھا۔
الحمد للہ.
ہر واجب روزے کی نیت رات کے حصے میں کرنا واجب ہے، واجب روزوں میں قضائے رمضان کے روزے بھی شامل ہوتے ہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص روزے کا پختہ ارادہ فجر ہونے سے پہلے نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں۔) اس حدیث کو ابو داود : (2454)، ترمذی: (730)، اور نسائی: (2331) نے روایت کیا ہے۔ سنن نسائی کے الفاظ ہیں کہ: (جو شخص رات کے وقت میں فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"کچھ اہل علم کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ: جو شخص رمضان کے روزے کا پختہ ارادہ فجر ہونے سے پہلے نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں ، یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ: غیر رمضان میں رمضان کے روزوں کی قضا دیتے ہوئے ، یا نذر کے روزے رکھتے ہوئے رات کے وقت میں روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہو گا۔
جبکہ نفل روزوں کے بارے میں یہ ہے کہ صبح ہونے کے بعد بھی نیت کر سکتا ہے، یہی موقف امام شافعی، امام احمد اور اسحاق رحمہم اللہ جمیعا کا ہے۔" ختم شد
جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ دن میں بھی فرض روزے کی نیت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/109)میں کہتے ہیں:
"اگر روزہ فرض تھا، جیسے کہ رمضان کے روزے یا رمضان کے قضا روزے، نذر اور کفارے کے روزے تو ان میں ہمارے امام احمد ، امام شافعی اور امام مالک کے ہاں رات کے حصے میں نیت کرنا لازم ہے۔
جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک رمضان کے روزے ہوں یا کوئی اور معین دن کا روزہ ہو تو اس کی دن کے وقت کی ہوئی نیت بھی کافی ہو گی۔" ختم شد
آپ کی نیت یہ تھی کہ اگر بیدار ہوئی اور سحری کی تو پھر روزہ رکھوں گی، تو یہ غیر یقینی نیت ہے، ایسی نیت کے ساتھ روزہ صحیح نہ ہو گا۔
جیسے کہ "الفروع" (4/459) میں ہے کہ:
"حنبلی فقہی مذہب کے مطابق: اگر کوئی شخص روزہ چھوڑنے میں متردد ہو، یا یہ نیت کرے کہ وہ ابھی نہیں کسی اور وقت میں روزہ توڑ دے گا، یا یہ کہے کہ: اگر مجھے کھانے پینے کی کوئی چیز مل گئی تو روزہ توڑ دوں گا وگرنہ روزہ پورا کروں گا، تو اس کا حکم بھی نماز کے حکم کی طرف مختلف فیہ ہے، چنانچہ ایک قول یہ ہے کہ: روزہ باطل ہو جائے گا؛ کیونکہ اس کی نیت پختہ نہیں ہے، اس لیے ایسی غیر پختہ نیت کے ساتھ روزے کا آغاز کرنا صحیح نہیں ہے۔" ختم شد
جبکہ کچھ فقہائے کرام ایسے شخص کا روزہ صحیح قرار دیتے ہیں جو کہے: "اگر صبح رمضان ہوا تو میرا روزہ ہے" اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ صبح روزہ ہے، چنانچہ اس کا تردد ماہ رمضان کے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اس کی نیت میں تردد ہے کہ وہ کل روزہ رکھے گا یا نہیں؟ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص جسے عذر کی وجہ سے رمضان کا روزہ ترک کرنے کی اجازت ہو اور وہ یکم رمضان کی رات کہے: ممکن ہے کہ صبح میں روزہ رکھوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ صبح روزہ نہ رکھوں، پھر طلوع فجر کے بعد روزہ رکھنے کا عزم کر لے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس کی روزہ رکھنے کی نیت یقینی نہیں تھی۔"
"الشرح الممتع" (6/362)
اس بنا پر:
اگر آپ فجر کی اذان سے پہلے بیدار ہوئیں اور روزے کی نیت کر لی تو پھر آپ کا روزہ صحیح ہے۔
اور اگر آپ اذان کے بعد بیدار ہوئی ہیں تو پھر آپ کا روزہ بطور قضا صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ آپ نے معلق نیت کی تھی، یقینی نیت نہیں تھی۔
واللہ اعلم