"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اكثر علماء كرام كا مسلك ہے اس كا ختنہ نہيں كيا جائيگا.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كوئى شخص بغير ختنہ ہى فوت ہو جائے تو تين صورتيں ہيں:
صحيح يہى ہے كہ جمہور كے ہاں قطعا اس كا ختنہ نہيں كيا جائيگا؛ كيونكہ ختنہ تكليفات شرعيہ ميں سے تھا اور يہ تكليف اور مكلف ہونا موت كى بنا پر زائل ہو چكى ہے.
دوسرى:
چھوٹے اور بڑے كا ختنہ كيا جائيگا.
تيسرى:
چھوٹے كا ختنہ ہوگا بڑے كا نہيں، اسے البيان ميں ذكر ہيں اور يہ دونوں صورتيں ہي ضعيف ہيں.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 352 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور رہا ( ميت ) كا ختنہ كرنا تو يہ مشروع نہيں، كيونكہ يہ ميت كے اعضاء ميں سے ايك اعضاء كو كاٹنا ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور بعض لوگوں سے بيان كيا جاتا ہے كہ اس كا ختنہ كيا جائيگا، اسے امام احمد نے بيان كيا ہے، اور جو كچھ ہم نے ذكر كيا اس كى بنا پر پہلا قول زيادہ اولى اور بہتر ہے. اھـ
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 484 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر بچہ بغير ختنہ ہى فوت ہو جائے تو كيا ہم اس كا ختنہ كريں يا نہ كريں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
اس كى طہارت ( يعنى ختنہ ) نہيں كيا جائيگا كيونكہ ختنہ كا وقت گزر چكا ہے، جو كہ اس كى زندگى تھى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 369 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
ميت كے زير ناف بال مونڈنے اور اس كا ختنہ كرنا مشروع نہيں، كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں ملتى " اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 13 / 114 ).
واللہ اعلم .