"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایک آدمی عیسائی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کا باپ ملحد ہے وہ اللہ تعالی کے وجود کو نہیں مانتا، تو کیا نکاح کے لیے اس باپ کے پاس حق ولایت ہے؟
الحمد للہ.
اول:
اگر عیسائی لڑکی پاک دامن اور زنا کاری سے محفوظ ہے تو اس سے شادی کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اَلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ: آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں، اور ان لوگوں کا کھانا جنہیں کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے، نیز تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے، اور مومن عفیفہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ان لوگوں کی عفیفہ عورتیں بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ بشرطیکہ اس سے تمہاری غرض مہر ادا کر کے انہیں نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی اور پوشیدہ آشنائی نہ ہو اور جس نے بھی ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا اس کا وہ عمل برباد ہو گیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا ۔[المائدہ: 5]
تاہم یہاں ایک شرط اور بھی ہے کہ مسلمان خاوند کو عیسائی لڑکی کے ساتھ شادی کے بعد لڑکی پر مکمل حق قِوام یعنی سرپرستی حاصل ہو، اسی طرح اس لڑکی سے پیدا ہونے والی اس کی اولاد پر بھی مکمل سرپرستی حاصل ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً
ترجمہ: اللہ تعالی ہرگز کافروں کے لیے مسلمانوں پر کوئی تسلط نہیں بنائے گا۔[النساء: 141]
چنانچہ امام ابن جریرؒ نے اسی سے متعلق ایک بہت ہی اہم شرط بیان کی ہے کہ:
"اہل کتاب لڑکی سے شادی کرنے والا ایسی کیفیت میں ہو کہ اس کی ہونے والی اولاد کو کفر پر مجبور نہ کیا جائے۔" ختم شد
" تفسیر طبری" (9/ 589)
لہذا اگر ملکی قوانین کے بارے میں خدشہ ہو کہ ان قوانین کی وجہ سے بیوی اور بچوں کی سرپرستی اور حق ولایت معطل ہو جاتا ہے ، یا بچوں کی کفالت کے حوالے سے اس کا حق کالعدم ہو جاتا ہے، یا عیسائی عورت کو اپنے بچوں کو عیسائی بنانے کا پورا حق دیا جاتا ہے، تو ایسی صورت میں اگر وہ اپنے اس حق کو قانونی تحفظ دے سکے ، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اقدام کر سکے تو جائز ہے وگرنہ عیسائی لڑکی سے شادی کرنا جائز نہیں ہو گا۔
اس لیے بہتر تو یہ ہے کہ مسلمان لڑکی سے شادی کرے؛ کیونکہ مسلمان لڑکی کا حصولِ پاکدامنی اور نان و نفقے پر زیادہ حق ہے، اسی طرح والدہ مسلمان ہو تو عام طور پر بچوں کی تربیت بھی اچھی ہوتی ہے، دوسری طرف اہل کتاب لڑکی کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ وہ بچوں کو خراب کرے، یا انہیں عیسائیت پر چلنے کی دعوت دے۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (5/ 84) میں ہے کہ:
"بہتر تو یہ ہے کہ عیسائی لڑکی سے شادی نہ کرے، جبکہ شیخؒ کہتے ہیں کہ: یہ عمل مکروہ ہے۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ: مسلمان آزاد لڑکیوں کے ہوتے ہوئے عیسائی لڑکیوں سے شادی مکروہ ہے، جیسے کہ اختیارات میں ہے اور یہی موقف قاضی اور اکثر علمائے کرام کا ہے؛ کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اہل کتاب کی لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کو فرمایا تھا کہ: انہیں طلاق دے دو" ختم شد
دوم:
عیسائی لڑکی کا ولی وہی ہو گا جو اس کے خونی رشتہ داروں میں سے عیسائی ہو گا، اس لیے ملحد شخص عیسائی لڑکی کا ولی نہیں ہو سکتا، یہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ دونوں کا دین الگ الگ ہے۔
جیسے کہ ولی کی شرائط ذکر کرتے ہوئے "كشاف القناع" (5/ 53) میں کہتے ہیں:
"تیسری شرط یہ ہے کہ ولایت کے لیے سر پرست اور زیر سرپرستی فرد دونوں کا دین ایک ہو، لہذا کوئی کافر شخص کسی مسلمان لڑکی کے نکاح کا ولی نہیں بن سکتا، نہ ہی برعکس ہو سکتا ہے۔ صاحب اختیارات کہتے ہیں کہ: چاہے لڑکی یہودی اور ولی عیسائی ہو ، یا اس کے برعکس معاملہ ہو۔ اس صورت میں مذکورہ روایت کردہ دونوں موقفوں سے یہ بھی کشید کیا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی نہیں بن سکتے۔ اس سے ملتی جلتی بات ٹھوس الفاظ میں شرح المنتھی میں موجود ہے کہ: عیسائی مرد کو مجوسی لڑکی کی ولایت حاصل نہیں ہے۔ دیگر مذاہب کا بھی یہی معاملہ ہے؛ کیونکہ محض نسب کی وجہ سے ان میں وراثت قائم نہیں ہو سکتی۔۔۔ حکمران وقت ولی کے بغیر کافر لڑکی کی شادی ولی بن کر کروا سکتا ہے۔" ختم شد
اس بنا پر اگر اس لڑکی کے عصبہ یعنی خونی رشتہ داروں میں کوئی عیسائی موجود نہ ہو تو مسلمان قاضی موجود ہو نے پر اس کا ولی بنے گا، لیکن اگر مسلمان قاضی بھی موجود نہ ہو تو اس علاقے کے اسلامی مرکز کا سربراہ اس کی شادی ولی بن کر کر دے گا۔
جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (18/ 322) میں ہے کہ:
"مسلمان کسی عیسائی لڑکی سے تبھی شادی کر سکتا ہے جب وہ زنا کاری سے پاک ہو، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا عقد نکاح اس کا ولی کروائے جو کہ اس کا والد ہے، لیکن اگر والد نہ ہو تو پھر قریب ترین خونی رشتہ دار؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔)
لیکن اگر اس کا کوئی ولی بھی نہ ہو تو اس کا نکاح مسلمانوں کا مفتی یا آپ کے ہاں کسی اسلامی مرکز کا سربراہ ولی بن کر کروائے گا، یہاں یہ درست نہیں ہو گا کہ لڑکی کی ماں ولی بن جائے؛ کیونکہ عقد نکاح میں ماں کے پاس حق ولایت نہیں ہوتا۔" ختم شد
واللہ اعلم