"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا عربی زبان میں حدیث کا متن یاد کرنا کسی بھی دوسری زبان میں اس کا ترجمہ یاد کرنے کے مساوی ہو گا؟
الحمد للہ.
حدیث نبوی یاد کرنے اور سیکھنے کے حوالے سے یہ ہے کہ حدیث عربی جاننے والے افراد صرف عربی میں یاد کریں جیسے کہ حدیث کی کتابوں میں احادیث کا عربی متن موجود ہے، یہ عمل عربی دان کے لیے حدیث کا دوسری زبان میں ترجمہ یاد کرنے سے بہتر ہے، اس کی دو وجوہات ہیں:
اول: عربی زبان دین کا شعار ہے، اور اللہ تعالی نے اسی زبان کو دین کی تبلیغ کے لیے چنا ہے، تو جس قدر ہو سکے مسلمان اپنے دین کو اسی عربی زبان کے ذریعے سیکھے، لہذا عربی زبان چھوڑ کر کسی اور زبان کی طرف مت جائے، ہمارے سلف صالحین کا طرزِ عمل یہی تھا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہر مسلمان اپنی طاقت کے مطابق عربی زبان سیکھے کہ عربی زبان میں کلمہ شہادت پڑھ سکے، قرآن کریم کی تلاوت کر سکے، اور عربی زبان میں جو اذکار فرض ہیں ان کی زبان سے ادائیگی کر سکے، اسی طرح تسبیح اور تشہد وغیرہ پڑھ سکے۔ پھر اگر کوئی شخص خاتم النببین (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور قرآن کی زبان کو اس سے بھی زیادہ سیکھتا ہے تو یہ اچھا عمل ہے۔” ختم شد
“الرسالة” (ص 48 – 49)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالی نے اپنے دین کے لیے جس زبان کو منتخب کیا وہ عربی زبان ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن کریم عربی زبان میں نازل فرمایا، اور عربی زبان کو ہی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان بنایا۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں: جس شخص کے پاس بھی عربی زبان سیکھنے کی صلاحیت ہو تو وہ عربی زبان سیکھے؛ کیونکہ یہ ایسی زبان ہے جسے سیکھنے کی سب سے زیادہ رغبت اور دلچسپی ہونی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ غیر عربی زبان بولنا حرام ہے۔”
امام شافعی رحمہ اللہ : کسی بھی عربی دان شخص کا نام غیر عربی زبان میں رکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے، یا عربی زبان میں غیر عربی کے الفاظ شامل کرنا بھی ناپسند کرتے تھے، ائمہ کرام کا یہ موقف صحابہ اور تابعین کرام سے منقول ہے۔ ختم شد
“اقتضاء الصراط المستقيم” (1 / 521 – 522)
دوسری وجہ:
احادیث کا ترجمہ ؛ احادیث کے متن کا معنی اور مفہوم ہوتا ہے، جبکہ بہت سی احادیث ایسی ہیں جن کے عربی الفاظ بھی مطلوب ہیں، تو احادیث کو یاد کرنے والا حسب استطاعت احادیث مبارکہ کے الفاظ یاد رکھنے کی کوشش کرے، مثلاً: اذکار کے الفاظ، اس کی دلیل سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کے لیے کرتے ہو۔ پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر یوں کہو اَللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ (ترجمہ : اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیرا فرمانبردار بنا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کر دیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ! جو کتاب تو نے نازل کی میں اس پر ایمان لایا۔ جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔ )تو اگر اس حالت میں اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کے بعد کوئی بات نہ کریں۔ سیدنا براء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دعا کو دہرایا ۔ جب میں آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ پر پہنچا تو میں نے ورسولك کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا نہیں، یوں کہو : وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (247) اور مسلم : (2710) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے براء کو { ورسولك } کی جگہ { وَبِنَبِيِّكَ } کہنے کی تاکید کیوں فرمائی؟ اس میں سب سے بہترین موقف یہ ہے کہ اذکار کے الفاظ توقیفی ہیں۔ اس لیے ماثور دعائیہ الفاظ میں ایسی خوبیاں اور راز پائے جاتے ہیں کہ وہاں عقل کو دخل دینے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے اذکار کے الفاظ اسی طرح یاد کیے جائیں گے جیسے کہ احادیث میں آئے ہیں، یہی موقف علامہ مازری نے اختیار کیا ہے۔” ختم شد
“فتح الباری” (11 / 112)
جبکہ وہ احادیث جن کے عربی الفاظ مطلوب نہیں ہیں ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جن کے معنی اور مفہوم میں اختلاف ہے، ایسے میں ان احادیث کا ترجمہ در حقیقت مترجم کا اختیار ہو گا یا وہ مترجم کا فہم ہو گا جو ممکن ہے کہ مرجوح ہو، یا مترجم کا ذاتی فہم غلط ہو ، یا مترجم اپنی زبان کی تعبیر میں غلطی کا شکار ہو چکا ہو۔
پھر کچھ احادیث ایسی بھی ہیں کہ ان میں موجود ایک ہی عربی جملہ متعدد معانی رکھتا ہے، جبکہ ترجمہ کرنے سے صرف ایک ہی معنی باقی رہتا ہے باقی قائم نہیں رہتے ، تو ترجمہ پڑھنے والا صرف ایک ہی معنی جان پائے گا، اور اگر مترجم حدیث کے تمام معانی کا احاطہ کرنا چاہے تو ترجمہ اتنا لمبا ہو جائے گا کہ مترجم حدیث یاد کرنے والا ہی اکتا جائے گا۔
لیکن جو شخص عربی زبان نہ سیکھ پائے، یا عربی متن یاد نہ کر سکے، تو وہ اپنی ہی زبان میں حدیث کا مفہوم یاد کر لے تو ایسا شخص بھی خیر عظیم کا حامل ہے، ایسا شخص زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ عربی الفاظ سے تو دور ہے، لیکن متن حدیث کا معنی جانتا ہے، تو حدیث کا معنی بھی علمِ نافع ہے، بلکہ اگر کوئی شخص اذکار، دعاؤں، اور دم وغیرہ میں بھی ایسے کرے تو اپنی زبان میں دعا اور اللہ کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
عربی زبان پر قدرت رکھنے والا شخص حدیث نبوی عربی میں ہی پڑھے اور اسے عربی زبان میں اسی طرح یاد کرے جیسے کتب حدیث میں روایات موجود ہیں؛ کیونکہ عربی زبان دین کا شعار ہے اور اسی زبان میں وحی نازل ہوئی ہے۔
اسی طرح احادیث کو عربی زبان میں یاد کرنے سے حدیث کے الفاظ بھی محفوظ ہوں گے اور کچھ احادیث ایسی ہیں جن کے عربی الفاظ ہی مطلوب ہیں جیسے کہ اذکار وغیرہ، تو عربی زبان میں احادیث یاد کرنے سے حدیث کے تمام معانی بھی محفوظ ہو جاتے ہیں جن میں ممکن ہے کہ ترجمہ کی وجہ سے کوئی معنی رہ جائے۔
واللہ اعلم