"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
مہر معجل اور مہر مؤجل دونوں جائز ہيں، يعنى فورى طور پر ادا كرنا اور بعد ميں ادا كرنا دونوں طرح ہى جائز ہے، يا پھر كچھ معجل ہو اور كچھ مؤجل تو بھى جائز ہے... اور اگر مہر كو كسى مقرر كردہ وقت تك مؤجل كيا جائے تو يہ اس مقرر كردہ وقت پر ادا كيا جائيگا.
اور اگر مہر مؤجل ہو اور اس كا وقت ذكر نہ كيا گيا ہو تو اس كے بارہ ميں قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مہر صحيح ہے، اور اس كى جگہ تفريق ہے؛ امام احمد كہتے ہيں: جب كسى شخص نے مہر معجل اور مؤجل دونوں پر شادى كى تو اس مہر كا وقت موت يا عليحدگى كى صورت ميں ہوگا " اھـ
ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 10 / 115 ).
دوم:
اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك رخصتى اور دخول سے قبل فوت ہو جائے تو عورت پورے مہر كى مستحق ٹھرےگى.
اس كے متعلق المغنى المحتاج ميں صحابہ كرام كا اجماع ذكر ہوا ہے.
ديكھيں: المغنى المحتاج ( 4 / 374 ).
اور الانصاف ميں ہے كہ:
" بغير كسى اختلاف كے " اھـ
ديكھيں: الانصاف ( 21 / 227 ).
سوم:
اگر خاوند فوت ہو جائے اور بيوى نے مہر نہ ليا ہو تو يہ مہر خاوند كے ذمہ قرض شمار ہوگا، اس كا تركہ ورثاء ميں تقسيم ہونے سے قبل بيوى اپنا مہر لے گى.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا مہر مؤجل جائز نہيں يا نہيں ؟ اور اگر جائز ہو اور پھر خاوند فوت ہو جائے اور طلاق نہ دى ہو تو تو كيا يہ مہر خاوند كے ذمہ قرض شمار ہوگا يا نہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" پورا مہر پہلے ادا كرنا يا پھر مؤخر كرنا، يا كچھ پہلے اور كچھ بعد ميں دينا جائز ہے، اور جو مہر مؤجل ہو وقت آنے پر اس كى ادائيگى كرنا ضرورى ہے، اور جس كا وقت متعين نہ كيا گيا ہو اس مہر كى ادائيگى طلاق دينے كى صورت ميں ادائيگى كرنا ہوگا، اور اگر فوت ہو جائے تو مہر اس كے تركہ سے ادا كيا جائيگا " اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 54 ).
واللہ اعلم .