"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اگر تو يہ روايات و قصے جھوٹ پر مبنى ہوں، اور شرعى اور علمى و تجرباتى حقائق كو توڑ موڑ كر بيان كيا گيا ہو جيسا كہ ڈارون كا نظريہ ارتقاء ہے، تو مسلمان شخص كو ايسے روايات و قصہ پڑھنے سے اجتناب كرنا چاہيے، بلكہ اس كے علاوہ وہ كسى اور دوسرى مفيد چيز اور مفيد علم، يا نيك و صالح عمل،اور حقيقى قصے اور تاريخ كے اوراق پڑھنے ميں مشغول رہے.
بہت سارى خيالى فلميں، اور خيالى روايات جسے وہ علمى خيالات كا نام ديتے ہيں اپنے اندر اكثر كفر سموئے ہوئے ہوتى ہيں، مثلا موت و حياۃ كا معاملہ،اور كسى چيز كو عدم سے وجود دينا كسى مخلوق اور قدرت كے ہاتھ ميں دينا، اور يہ كہ ليبارٹريوں ميں سائنس دانوں كسى چيز كو عدم سے وجود ميں لانا ممكن ہے، يا پھر زندگى ايك جامد جہان ميں بنا دينا، يا جرثومہ كئى ہزار برس تك بےجان تھا، اور مستقبل كى طرف جانا، اور حاضر كى طرف پلٹنا، حالانكہ يہ سب كچھ محال ہے.
كيونكہ غيب تو اللہ تعالى كے علاوہ كوئى بھى نہيں جانتا، اور ان ميں سے بعض فلميں اور روايات تو ان تاريخى حقائق سے بھى واضح طور پر متصادم ہيں جو قرآن مجيد اور سنت نبويہ ميں انسان كى پيدائش اور زمين پر اس كى زندگى كے متعلق بيان ہوئے ہيں.
تو پھر انسان اپنے نفس كو اس قسم كى خيالى روايات كا مطالعہ اور اس طرح كى خيالى فلموں كا مشاہدہ كر كے روطہ حيرت ميں كيوں ڈالے جو اس كے عقيدہ و ايمان كو متزلزل كر كے ركھ ديں، يا پھر كم از كم اپنا وقت ان خرافات ميں ضائع كر كے ايسى چيز ميں مشغول ہو جائے جس كا كوئى فائدہ تك نہيں.
اگرچہ بعض لوگ اسے تفريح سمجھتے اور گرادنتے ہيں، كيونكہ كسى بھى حرام چيز كے ساتھ تفريح حاصل كرنا حرام ہے، اور مسلمان شخص كا وقت تو بہت ہى زيادہ قيمتى ہے كہ وہ اسے اس قسم كى خرافات ميں ضائع كرتا پھرے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
آدمى كے اچھا مسلمان ہونا يہ ہے كہ وہ لا يعنى اشياء كو ترك كر دے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2239 )، صحيح الجامع حديث نمبر ( 5911 ).
واللہ اعلم .