"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کسی شخص کے یہ کہنے کا کیا حکم ہے کہ : وہ فلاں فلاں چیز کا حقدار ہے۔ کیونکہ ہم بہت سے لوگوں کو اپنی باتوں میں یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ : وہ فلاں اسکول میں داخلے کا حقدار ہے۔ یا وہ فلاں ملازمت کا حق دار ہے، یا فلاں عورت بڑی عورت ہے اور وہ کسی نیک مرد کی حق دار ہے۔ ایسی باتیں کرنے کا کیا حکم ہے کہ فلاں اور فلاں کو اس کا حق نہیں ملا، یعنی کسی نے ان پر ظلم کیا ہے، تو ایسی باتیں کرنے کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ.
کوئی شخص اپنے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں کہے کہ وہ کسی مخصوص چیز کا حق دار ہے، تو اس کے مفہوم کے متعلق دو احتمال ہیں:
پہلا احتمال:
کہنے والا شخص یہ بات اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے متعلقہ شخص کی ملازمت یا شادی جیسی خواہشات کو اس کی تقدیر میں شامل نہیں کیا۔
تو پھر اس بات کو مذکورہ اعتراض کی صورت میں کہنا نہایت ہی گھٹیا گمراہی ہے؛ کیونکہ اس میں صاف طور پر یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے اس شخص پر ظلم کیا ہے، یا اللہ تعالی کو علم نہیں ہے، یا اللہ تعالی کے اس عمل میں حکمت نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی ان تمام باتوں سے کہیں بالا تر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی لوگوں پر معمولی سا بھی ظلم نہیں کرتا، لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ [یونس: 44]
اس لیے مسلمان کو اپنی زبان وغیرہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے فیصلوں پر اعتراض کرنے سے باز رکھے، یا اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی کرتے ہوئے یہ گمان رکھے کہ وہ اپنی ہر من چاہی خواہش کا حق دار تھا لیکن اللہ تعالی نے اس کی تقدیر میں کچھ اور ہی لکھ دیا۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اکثر لوگ، بلکہ سبھی -الا ماشاء اللہ – اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں؛ کیونکہ بنو آدم میں سے اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اسے اس کا حق پورا نہیں دیا گیا، اس کی قسمت ہی کھوٹی ہے، حالانکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ کا حق دار تھا جتنا اللہ تعالی نے اسے دیا ہے۔ یعنی اپنی زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ: مجھ پر میرے رب نے ظلم کیا ہے! اور مجھے میرے استحقاقات سے روکا، حالانکہ اس کا پورا جسم اس کے خلاف گواہی دے رہا ہوتا ہے، لیکن اپنی زبان سے ان تمام چیزوں کا انکار کرنے والا ہوتا ہے بس اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ زبان سے کہہ دے، اسے اپنے آپ کو پرکھنے اور قلب و ذہن میں رچی بسی باتوں کو کریدنے سے یہ بات ایسے دہکتی ہوئی نظر آئے گی جیسے بھٹی میں نیچے دبی لکڑی میں آگ دہک رہی ہوتی ہے ۔۔۔
ایسے مقام پر عقل مند اور اپنے لیے خیر چاہنے والے کو چاہیے کہ اپنا خیال کرے، اور اللہ تعالی سے توبہ کرے اور ہر اس لمحے کی اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے۔ جس ، جس وقت میں اس نے اللہ تعالی کے بارے میں بد ظنی کی تھی۔ اسے چاہیے کہ اپنے نفس کے بارے میں ہی بد ظنی رکھے جو کہ ہر بیماری کی جائے پناہ ہے، اس کا اپنا نفس ہی ہر شر کا ماخذ ہے، جو کہ جہالت اور ظلم کا مرکب بھی ہے۔ اسے چاہیے کہ احکم الحاکمین ، اعدل العادلین اور ارحم الراحمین ذات کی بجائے اپنے نفس کے متعلق ہی بد گمانی کرے؛ کیونکہ وہی ذات ہے جو بے نیاز ہے، ہر قسم کے حمد و شکر کی مستحق ہے، وہ ذات ہے جو کامل بے نیازی کی اہل ہے، وہ کامل ترین حمد اور کامل ترین حکمت سے متصف ہے، وہ ذات ہمہ قسم کے ذاتی، صفاتی ، فعلی اور اسمائے حسنی میں ہر قسم کی کمی سے بالکل پاک صاف ہے؛ کیونکہ اس کی ذات کمال مطلق کی ہر اعتبار سے مستحق ہے، یہی حال اس کی صفات کا ہے، اور افعال بھی اسی معیار کے ہیں، اللہ تعالی کے تمام افعال حکمت، مصلحت، رحمت اور عدل سے بھر پور ہیں۔ نیز اللہ تعالی کے تمام نام ہی سب سے اچھے ہیں۔" ختم شد
"زاد المعاد" (3/211)
دوسرا احتمال:
یہ بات مسلمان اللہ تعالی کے فیصلوں پر اعتراض کرتے ہوئے تو نہ کہے بلکہ حقیقت حال ذکر کرتے ہوئے کہے، اور اپنے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں گواہی دے کہ وہ فلاں کام کا حق دار ہے، اس لیے کہ اس کے پاس تعلیم اور تجربہ ایسا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کام کا اہل قرار پاتا ہے۔
تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس کی گواہی سچی ہو، محض زبانی جمع خرچ نہ ہو؛ کیونکہ جھوٹ سب کو معلوم ہے کہ حرام ہے، اور اسی طرح کسی ایسی چیز کے بارے میں گواہی دینا بھی درست نہیں ہے جس معاملے کے بارے میں اسے مکمل علم نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
ترجمہ: ایسی چیز کے پیچھے مت لگ جس کے بارے میں آپ کو علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت، بصارت اور دل ہر چیز کے بارے میں سوال ضرور کیا جائے گا۔[الاسراء: 36]
واللہ اعلم