"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا بے ہوشى نواقض وضوء ميں شامل ہوتى ہے ؟
الحمد للہ.
جى ہاں علماء كرام كا اجماع ہے كہ بے ہوشى نواقض وضوء ميں شامل ہے چاہے تھوڑى سى بھى ہو.
اس ليے جو شخص بھى بےہوش ہوا اور اس كا شعور اور احساس جاتا رہا چاہے ايك سيكنڈ اور لحظہ ہى بےہوش ہو تو اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جنون يا بےہوشى يا نشہ يا عقل زائل كرنے والى دوسرى اشياء سے عقل زائل ہونے سے بالاجماع وضوء ٹوٹ جاتا ہے، چاہے كچھ دير كے ليے ہى عقل زائل ہو.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: علماء كرام كا اجماع ہے كہ بے ہونے والے شخص پر وضوء كرنا واجب ہے.
اور اس ليے بھى كہ ان كى حس سونے والے شخص سے زيادہ بعيد ہے اس كى دليل يہ ہے كہ انہيں متنبہ بھى كيا جائے تو انہيں پتہ نہيں چلتا، سوئے ہوئے شخص پر وضوء واجب ہونے ميں يہ تنبيہ ہے كہ بےہوش شخص پر وضوء كا وجوب سونے والے سے زيادہ تاكيدى ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 234 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں كہتے ہيں:
" امت كا اس پر اجماع ہے كہ جنون اور بےہوشى سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اس كے متعلق ابن منذر اور دوسروں نے اجماع نقل كيا ہے.
اور ہمارے اصحاب كا اس پر اتفاق ہے كہ جس شخص كى بھى بے ہوشى يا جنون يا بيمارى يا شراب نوشى يا نبيذ نوش كرنے يا كسى اور چيز سے، يا ضرورت كى بنا پر كوئى دوائى پينے سے يا كسى اور سبب سے اس كى عقل زائل ہو جائے تو اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا....
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ: ابتدائى مستى نہيں بلكہ وہ نشہ وضوء توڑتا ہے جس كى بنا پر شعور اور احساس باقى نہ رہے، اور ہمارے اصحاب كہتے ہيں: اس ميں بيٹھے ہوئے جسے بٹھانا ممكن ہو وغيرہ ميں كوئى فرق نہيں، اور نہ ہى قليل اور كثير ميں فرق ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 25 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا بے ہوشى سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جى ہاں بے ہوشى سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؛ كيونكہ بے ہوشى نيند سے زيادہ شديد ہے، اور اگر نيند ميں اتنا غرق ہو كہ اگر اس سے كچھ خارج ہو جائے تو اسے پتہ ہى نہ چلے تو اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، ليكن اگر تھوڑى سى نيند ہو كہ اگر سوئے شخص كا وضوء ٹوٹ جائيگا تو وہ خود اسے محسوس كرلے، تو يہ نيند وضوء نہيں توڑےگى، چاہے وہ ليٹا ہوا ہو يا پھر سہارا لے كر بيٹھا ہو، يا بغير سہارا كے بيٹھا ہو، يا كسى بھى حالت ميں ہو، جب اس كا وضوء ٹوٹے اور اسے خود ہى اس كا احساس ہو جائے تو يہ نيند وضوء نہيں توڑےگى، تو پھر بے ہوشى تو اس سے بھى زيادہ شديد ہے اس ليے جب كوئى انسان بے ہوش ہو جائے تو اس كے ليے وضوء كرنا واجب ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 200 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كچھ لحظات بے ہوش يا عقل غائب ہونے والے شخص كے وضوء كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس ميں تفصيل ہے:
اگر تو قليل اور تھوڑى سى ہو كہ اس كے ہوش و حواس قائم ہوں اور وضوء ٹوٹنے كا احساس ہوتا ہو تو يہ نقصان دہ نہيں، اونگھنے والے شخص كى طرح جو كہ اپنى نيند ميں غرق نہ ہوا ہو، بلكہ وہ حركت كو سنتا ہو تو يہ اسے كوئى ضرر نہيں ديگى حتى كہ اسے علم ہو كہ اس سے كچھ خارج ہوا ہے.
اسى طرح اگر بےہوشى احساس ميں مانع نہ ہو، ليكن اگر وہ احساس ميں مانع ہو اور اس سے خارج ہونے والى چيز كے خارج ہونے كے شعور كو روكتى ہو مثلا نشئى، يا ايسى بيمارى ميں مبتلا شخص جس كا شعور اور احساس ختم ہو جائے اور وہ قومہ ميں چلا جائے تو بے ہوش شخص كى طرح اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا، اور اسى طرح مرگى كا دورہ والے لوگ بھى " انتہى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 145 ).
واللہ اعلم .