"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
رمضان المبارک میں 15 دن مجھے ماہواری جاری رہی ہے، اور تین بار درمیان میں منقطع ہوئی جس کی وجہ سے میں روزے نہیں رکھ پائی، اور روزے رکھنے کا جوش اور جذبہ بالکل ماند پڑ گیا، آخر کار مجھے روزے رکھنے کا موقع مل ہی گیا تو میں تراویح ادا نہیں کر پائی؛ کیونکہ میرے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی ہے جس کی عمر ابھی ایک سال بھی نہیں ہے، رات کو مجھے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے، رات کو مجھے سونا پڑتا ہے میری نیند پوری ہو اور دن میں بچے کا خیال رکھ سکوں کیونکہ بچے جلدی بیدار ہو جاتے ہیں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کما حقہ عبادات نہیں کر پائی، کیا مجھے روزوں کی قضا دیتے وقت اتنا ہی اجر ملے گا جتنا مجھے رمضان میں ملنا تھا؟
مجھے بطور ماں نصیحت کریں کہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں اور بچوں کو نگہداشت کرتے ہوئے نیک کام کیسے کر سکتی ہوں؟
الحمد للہ.
اول:
رمضان میں کسی عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنے والا شخص جب رمضان کے بعد روزے کی قضا دیتا ہے تو ان شاء اللہ اسے رمضان میں روزہ رکھنے کے برابر ہی اجر ملے گا۔
اس کی دلیل سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بندہ جس وقت بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا وہ اقامت اور صحت کی حالت میں عمل کیا کرتا تھا۔) بخاری: (2834)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ ایسے شخص کے بارے میں ہے جو کوئی نیک کام کیا کرتا تھا لیکن کسی عذر کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو گئی، اگر یہ رکاوٹ نہ ہوتی تو وہ نیک کام تسلسل سے جاری رکھتا ، جیسے کہ یہ بات سنن ابو داود میں ہشیم کی روایت میں عوام بن حوشب کے طریق سے صراحت کے ساتھ موجود ہے ، اس کے آخر میں ہے کہ: (اس بہترین عمل کے برابر اجر ملتا ہے جو وہ صحت اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا) اسی طرح یہ وضاحت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت میں بھی موجود ہے کہ : (یقیناً انسان جب کسی عبادت کو بڑے اچھے طریقے سے سر انجام دے رہا ہو اور پھر وہ بیمار ہو جائے تو اس کے فرشتے سے کہا جاتا ہے: اس کا عمل ویسے ہی لکھو جیسے یہ صحت یابی میں کیا کرتا تھا، یہاں تک میں اسے صحت یابی دے دوں یا اپنی طرف بلا لوں) اس حدیث کو عبدالرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ اسی طرح مسند احمد میں سیدنا انس کی مرفوع روایت ہے کہ : (جس وقت اللہ تعالی اپنے کسی مسلمان بندے کو جسمانی تکلیف میں مبتلا کر دے تو اللہ تعالی فرماتا ہے: اس کے لیے وہی نیک عمل لکھو جو یہ صحت یابی میں کیا کرتا تھا، اگر اسے اللہ تعالی شفا دے دے تو اسے گناہوں سے پاک صاف کر دیتا ہے اور اگر اپنے پاس بلا لے تو اسے معاف کر کے رحمت نازل فرماتا ہے۔) اس حوالے سے ابراہیم سکسکی کی ابوبردہ سے منقول روایت کا ایک متابع بھی ہے جسے طبرانی نے سعید بن ابو بردہ کی سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (یقیناً اللہ تعالی مریض کے لیے وہ افضل ترین عمل لکھتا ہے جو وہ اپنی صحت کے ایام میں کیا کرتا تھا، اور یہ اس وقت تک ہوتا ہے جب تک وہ بیماری کی قید میں رہتا ہے) الحدیث ۔ اسی طرح سنن نسائی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ : (کوئی بھی آدمی رات کو پابندی سے قیام اللیل کرتا ہو اور اس پر نیند غالب آ جائے یا اسے تکلیف ہو اور قیام نہ کر سکے تو اس کے لیے اس کے قیام کا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور نیند اس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے صدقہ ہو جاتی ہے۔)"ختم شد
ماخوذ از: فتح الباری
مذکورہ بالا احادیث میں عذر کی وجہ سے قیام اور تلاوت وغیرہ کا عمل نہ کرنے والے شخص کو اجر دیا جا رہا ہے حالانکہ اس نے بعد میں بھی اس کی قضا نہیں دی؛ کیونکہ اسے قضا کا حکم ہی نہیں دیا گیا؛ تو جو شخص عذر زائل ہونے کے بعد قضا بھی دے رہا ہے جیسے کہ حائضہ عورت روزوں کی قضا دیتی ہے تو اس کا حق زیادہ بنتا ہے کہ اسے بھی ادا جتنا ہی اجر ملے۔
اسی لیے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ: حائضہ عورت کو حیض کے دوران آنے والی نمازوں کا اجر ملتا رہتا ہے۔
جیسے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"بعض شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں: حائضہ عورت کے لیے حیض کے دوران والی نمازوں کا اجر و ثواب جاری رہتا ہے؟ کیونکہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کی حدیث عام ہے کہ: (جس وقت بندہ بیمار ہو یا سفر میں ہو ۔۔۔)"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا ہونا کوئی بعید نہیں ہے؛ کیونکہ ظاہری طور پر دلائل اسی جانب ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالی کو اس کے بارے میں علم ہے کہ اگر حیض نہ ہوتا تو اس نے نماز پڑھنی تھی تو اسے نماز کا ثواب ملے گا، ان دلائل میں سے چند یہ ہیں: (جس وقت بندہ بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اللہ تعالی اس کے لیے اتنا ہی عمل لکھتا ہے جتنا وہ صحت اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کرام کے بارے میں کہا تھا: (تم جس کسی وادی میں چلے ہو یا گھاٹی عبور کی ہے وہ تمہارے ساتھ تھے) اسی حدیث کے ایک اور لفظ ہیں کہ : (وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں انہیں عذر نے روک لیا تھا۔)"
تو اگر اللہ تعالی کو حیض اور نفاس والی خاتون کے بارے میں علم ہے کہ اس نے نماز حیض یا نفاس کی وجہ سے چھوڑی ہے تو اس کے لیے مکمل اجر کی امید کی جاسکتی ہے۔"
ماخوذ از : شیخ ابن باز ویب سائٹ
اسی طرح ان سے ایک اور سوال بھی پوچھا گیا:
"رمضان میں بڑھاپے جیسے شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے والا شخص جو کہ روزے کی جگہ کھانا کھلا رہا ہے کیا اسے روزے دار کے برابر اجر ملے گا؟"
تو آپ نے جواب میں کہا:
"امید ہے کہ اسے روزے دار کے برابر اجر ملے گا؛ کیونکہ اس کا عذر شرعی طور پر مقبول ہے، اور مقبول عذر والے کا حکم روزے دار والا ہی ہوتا ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: (جس وقت بندہ بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اللہ تعالی اس کے لیے اتنا ہی عمل لکھتا ہے جتنا وہ صحت اور اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا) اس لیے بڑھاپے کی وجہ سے جو شخص روزہ رکھنے سے قاصر ہے وہ بھی روزے داروں کے حکم میں ہے؛ کیونکہ وہ روزہ رکھنے سے معذور ہے۔
اس لیے کہ اگر بڑھاپا نہ ہوتا تو وہ روزہ ضرور رکھتا، چنانچہ یہ شخص معذور ہے اور یہ ہر روزے کے عوض کھانا کھلانے کی استطاعت کی صورت میں کھانا کھلائے گا، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے نہ روزے اور نہ ہی کھانا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمہ: اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرو۔[التغابن: 16] "
دوم:
اچھی خواتین پر لازم ہے کہ اپنی عبادات اور گھریلو ذمہ داریاں دونوں ہی اچھے طریقے سے نبھانے کی کوشش کریں، نماز، روزہ، ذکر اور شرعی علم کا حصول سمیت دیگر مثبت سرگرمیوں کو جاری رکھے، اس لیے اپنے وقت کو صحیح انداز سے مرتب کرے اور اپنے آپ کو اس کا پابند بنائے۔
آپ کے لیے اس حوالے سے معاون امور درج ذیل ہیں:
اس لیے آپ بھی اللہ تعالی سے مدد مانگیں، اپنے وقت کو مرتب کریں، اور نیک سہیلیوں کے ساتھ رہیں، تعلیمی اور دعوتی پروگراموں میں شرکت کریں۔
واللہ اعلم