اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

فجر سے قبل كھانا بند كرنا بدعت ہے اس پر اعتراض صحيح نہيں

30-08-2008

سوال 38068

سوال نمبر ( 12602) كےجواب ميں آپ نےكہا ہے كہ فجر سے پانچ منٹ قبل كھانا پينا بند كردينا بدعت شمار ہوتا ہے، ميں نے بخاري شريف ميں ايك حديث ديكھي ہے جسے انس نے بيان كيا ہے كہ زيد بن ثابت رضي اللہ تعالي عنہ كہتے ہيں ہم نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےساتھ سحري كھائي پھر وہ نماز كےليے كھڑے ہوگئے، ميں نےسوال كيا كہ سحري اور اذان كے درميان كتنا وقت تھا تو انہوں نےفرمايا پچاس آيات تلاوت كرنے كےليے كافي تھا . پچاس آيات پڑھنے ميں پانچ سے دس منٹ صرف ہوتے ہيں اور بعض اوقات اس سے بھي زيادہ، تو پھر فجر سے پانچ منٹ قبل كھانا پينا بند كرنا بدعت كيسے ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام بخاري رحمہ اللہ تعالي عنہ انس عن زيد بن ثابت رضي اللہ تعالي عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ ہم نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےساتھ سحري كي پھر نبي صلي اللہ عليہ وسلم نماز كےليے كھڑے ہوئے، ميں نےكہا اذان اور سحري كےمابين كتنا وقت تھا، انہوں نےكہا پچاس آيات كا . صحيح بخاري حديث نمبر ( 1921 )

تويہ حديث اس كي دليل ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي سحري كا وقت اذان سے اتني دير قبل تھا، اس ميں يہ نہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے روزہ شروع كيا اور فجر سے اتني دير قبل كھانا پينا بند كرديا.

سحري كےوقت اور كھانا پينا بند كرنے كےوقت ميں فرق ہے اورالحمدللہ يہ واضح ہے، جيسے آپ كہيں كہ: ميں نے فجر سے قبل دو بجے سحري كي، تو اس كا معني يہ نہيں كہ آپ نےاس وقت روزہ شروع كيا ہےبلكہ يہ توصرق سحري كھانے كےوقت كي خبر ہے .

اور زيد بن ثابت رضي اللہ تعالي عنہ كي حديث سے يہ فائدہ حاصل ہوتا ہے كہ سحري دير سے كھاني مستحب ہے اور اس سے يہ نہيں نكلتا ہے كہ فجر سے كچھ مدت قبل كھانا پينا بند كرنا مستحب ہے .

اللہ تعالي نے توروزے ركھنےوالے كےليے كھانا پينا مباح قرار ديا ہے جب تك اسے طلوع فجر كا يقين نہ ہوجائے .

فرمان باري تعالي ہے:

تم كھاتےپيتے رہويہاں تك كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگےسے ظاہر ہوجائے پھر رات تك روزے كو پورا كرو البقرۃ ( 187 )

ابوبكر الجصاص رحمہ اللہ نے احكام القرآن ميں كہا ہے:

تواللہ تعالي نے روزوں ميں رات كےشروع سے ليكر طلوع فجر تك جماع، كھانا پينا مباح قرار ديا ہے پھر رات تك روزہ پورا كرنے كاحكم ديا. اھ

ديكھيں احكام القرآن للجصاص ( 1 / 265 )

امام بخاري اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالي نے عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا سے بيان كيا ہے كہ بلال رضي اللہ تعالي عنہ رات كےوقت اذان ديتے تھے تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( ابن ام مكتوم كےاذان دينے تك كھاؤ پيئو كيونكہ وہ طلوع فجر سے قبل اذان نہيں كہتا ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 1919 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1092 )

امام نووي رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں :

ہمارے اصحاب وغيرہ علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ سحري كرنا سنت ہے اورسحري ميں دير كرنا افضل ہے اس كي دليل صحيح احاديث ميں ملتي ہيں اور اس ليے كہ ان دونوں ميں ( يعني سحري كھانا اور سحري دير سے كرنا ) روزے كےليے ممدو معاون ہے، اور اس ليے بھي كہ اس ميں كفار كي مخالفت ہے .. اور روزے كا محل دن ہے اس ليے افطاري ميں دير اور رات كےآخر ميں سحري كرنے سے ركنے كا كوئي معني نہيں بنتا . اھ

ديكھيں: المجموع ( 6 / 406 )

مستقل فتوي كميٹي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا :

ميں بعض تفسير ميں يہ پڑھا ہے كہ روزے دار كواذان فجر سے تقريبا بيس منٹ قبل كھانا پينا بند كردينا چاہيے اسے احتياطي امساك كانام ديا جاتا ہے، تورمضان المبارك ميں امساك اور اذان كےمابين وقت كي مقدار كيا ہے ؟

اور مؤذن جب الصلاۃ خيرمن النوم كہہ رہا ہو اس وقت كھانےپينے والے كا حكم كيا ہوگا كيا ايسا كرنا صحيح ہے؟

كميٹي كا جواب تھا:

روزہ دار كےليے امساك اور افطاري كي دليل اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

تم كھاتےپيتے رہويہاں تك كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگےسے ظاہر ہوجائے پھر رات تك روزے كو پورا كرو البقرۃ ( 187 )

لھذا طلوع فجر تك كھانا پينا مباح ہے اور اللہ تعالي نے كھانے پينے كے ليے حد مقرر كي ہے يہي وہ سفيد دھاگہ ہے لھذا جب فجر ثاني ظاہر ہوجائے تو كھانا پينا اور روزہ توڑنے والي دوسري اشياء حرام ہوجاتي ہيں، جواذان سنتے ہوئے پاني پي لے اگر تو يہ اذان طلوع فجرثاني كےبعد ہورہي ہے تواس كےذمہ قضاء ہوگي اور اگر اذان طلوع فجر سے قبل ہے تواس كےذمہ قضاء نہيں. اھ

ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 284 )

شيخ ابن بار رحمہ اللہ تعالي سے فجر سے پندرہ منٹ قبل كھانا پينا بند كرنے كا وقت مقرر كرنے كےبارہ ميں پوچھا گيا توان كا جواب تھا:

ميرے علم ميں تواس كي كوئي دليل نہيں، بلكہ كتاب وسنت تواس پر دلالت كرتےہيں كہ طلوع فجر كےوقت امساك يعني كھانا پينا بند ہوگا كيونكہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:

تم كھاتےپيتے رہويہاں تك كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگےسے ظاہر ہوجائے پھر رات تك روزے كو پورا كرو البقرۃ ( 187 )

اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا بھي فرمان ہےكہ:

( فجردو قسم كي ہے: وہ فجر جس ميں كھانا پينا حرام اور نماز ادا كرني حلال ہوجاتي ہے، اور وہ فجر جس ميں نماز ( يعني فجر كي نماز ) حرام ہوتي ہے اور اس ميں كھانا حلال ہے ) .

اسے ابن خزيمہ اور امام حاكم نےروايت كيا اور دونوں نےاسے صحيح قرار ديا ہے جيسا كہ بلوغ المرام ميں موجود ہے.

اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا يہ بھي فرمان ہے:

بلاشبہ بلال رضي اللہ تعالي عنہ رات كےوقت اذان ديتے ہيں لھذا تم كھاتے پيتےرہو حتي كہ ابن ام مكتوم رضي اللہ تعالي عنہ اذان ديں .

راوي كہتےہيں: ابن ام مكتوم رضي اللہ تعالي عنہ نابيناآدمي تھے وہ اس وقت تك اذان نہيں ديتےتھے جب تك انہيں يہ نہ كہا جاتا كہ تم نےصبح كردي تم نےصبح كردي . متفق عليہ .

ديكھيں: مجموع فتاوي ابن باز ( 15 / 281 )

واللہ اعلم  .

روزہ دار کے لیے جائز امور
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔