"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں اور مجھ سے کافی چھوٹی ایک لڑکی نے آپس میں اتفاق کر لیا ہے کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور ہم لڑکی والوں کو اپنی اصلی عمر نہیں بتلائیں گے، اور مثال کے طور پر میری عمر میں سے 10 سال انہیں کم کر کے بتلائیں گے، تو کیا یہ شرعاً جائز ہے، یا ہم پر اس کا گناہ ہو گا؟ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں اس کا جواب بتلائیں۔ اللہ تعالی آپ کو برکت دے۔ ہمیں جواب عنایت فرمائیں تا کہ ہم مناسب حتمی فیصلہ کر سکیں۔
الحمد للہ.
اول:
یقیناً اللہ تعالی نے جھوٹ کو حرام قرار دیا ہے اور مومن پر یہ واجب کیا ہے کہ اپنی گفتگو میں سچ بولے، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولنے والے شخص کے لیے وعید سنائی ہے کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو جھوٹ سے بچائیں؛ کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ ہی کی جستجو کرتا ہے تو اسے اللہ تعالی کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5743) اور مسلم : (2607) نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
دوم:
خاوند کی مشروط صفات: بنیادی طور پر یہ لڑکی کا حق ہے؛ کیونکہ یہاں معاملہ لڑکی کا ہی ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چند شرائط میں لڑکی کے ولی کا کوئی عمل دخل نہ ہو، خصوصاً ایسی باتوں میں جب لڑکی کے ولی یہ سمجھیں مخصوص چیزیں ان میں عدم مفاہمت کا باعث بن سکتی ہیں، یا کسی اور منفی اثرات کا باعث بن سکتی ہیں تو ایسے میں لڑکی کے اہل خانہ کی رائے کو مکمل طور پر غیر ضروری قرار دینا ممکن نہیں، اسی لیے شریعت نے لڑکی کا نکاح ولی کے اختیار میں رکھا ہے، چنانچہ لڑکی اپنا نکاح خود سے نہیں کروا سکتی؛ کیونکہ لڑکی کے ولی کو لڑکی کہ بہ نسبت نکاح کے معاملات کا زیادہ علم ہوتا ہے؛ کیونکہ ولی کے پاس تجربہ اور زندگی سے حاصل شدہ اسباق ہیں، اور ولی کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی زیر کفالت لڑکی کے لیے بہترین رشتہ منتخب کرے، اور لڑکی کے مفادات کے لیے کو شش کرے۔
کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ عمر میں زیادہ فرق ولی کے ہاں کوئی معنی نہ رکھتا ہو، اور ممکن ہے کہ وہ اس کو اہمیت دے؛ کیونکہ کچھ ایسے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ولی عمر پر توجہ نہ دے۔
اس معاملے میں علاقائی و سماجی رسم و رواج کافی حد تک کارفرما ہوتے ہیں، بلکہ ممکن ہے کہ لڑکی کے حالات اور معاملات بھی مؤثر ہوتے ہیں۔
پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عمر کو چھپانے کا معاملہ کوئی زیادہ نہیں چل سکتا، بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ جلد ہی یہ بے نقاب ہو جائے گی اور پھر ممکن ہے کہ باہمی تنازعات اور جھگڑے جنم لیں، چنانچہ جن چیزوں سے بھی دو اہل ایمان کے ہاں تنازعہ کا خدشہ ہو تو شریعت اس سے منع کرتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ترجمہ: یقیناً اہل ایمان باہمی اخوت رکھتے ہیں۔[الحجرات: 10] اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی فرمان ہے کہ: (تم سب اللہ تعالی کے بندے اور بھائی چارے کے ساتھ رہو) اس حدیث کو امام بخاری: (6064) اور مسلم : (2563) نے روایت کیا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ:
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ خاوند کی عمر کے بارے میں جھوٹ ، جھوٹ ہی ہے، اور اس جھوٹ کو بولنے کے لیے ہمیں کسی گنجائش کا علم نہیں ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ اپنے تمام تر معاملات میں جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، اور اپنی زندگی کو اس قسم کے عمل سے شروع مت کریں، آپ لڑکی کے اہل خانہ کو حقیقت بتلائیں، پھر مکمل معاملہ ان کے سپرد کر دیں کہ انہیں سارے معاملے کی حقیقت کا علم ہو کہ اس میں کسی قسم کا جھوٹ یا دھوکا دہی نہ ہو۔
اس سارے معاملے سے پہلے آپ اللہ تعالی سے استخارہ کریں؛ کیونکہ انسان کے لیے کس معاملے میں خیر ہے؟ یہ بات صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے:
وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئاً وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو ۔[البقرۃ: 216]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً
ترجمہ: بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالی اس میں بہت بھلائی کر دے ۔[النساء: 19]
واللہ اعلم