"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں صراحتا کہتا ہوں کہ میں سوالات میں آپ کے جوابات سے بہت حیران ہوا ہوں کہ آپ نے سب سوالوں کے جوابات بہت ہی ذھانت وفطانت سے دیۓ ہیں ، میں حقیقتا اسلام کےبارہ میں مزید معلومات چاہتا ہوں ، لیکن میں ہربار ایک نئي چيز سکھتا ہوں اورکچھ شبہ میں پڑ جاتا ہوں اس بار میرا سوال یہ ہے کہ :
کیا یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید مرد کے لیے اپنی بیوی کوزدکوب کرنا یا پھر دانتوں سے کاٹنا جائز قرار دیتا ہے ؟
اوراگرجواب اثبات میں ہوتو میں اس کی وضاحت چاہتا ہوں ؟
الحمد للہ.
ہمیں یہ بہت ہی خوشی ہوتی ہے کہ اپ ہماری ویب سائٹ پر بہت زيادہ تشریف لاتے اور مطالعہ کرتے ہیں ، اورآپ اسلامی تعلیمات سیکھنے کی رغبت رکھتے ہیں ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کواس چيز کی ھدایت نصیب فرمائے جس میں آپ کی دنیا اورآخرت کی سعادت ہے ۔
قرآن مجید میں کہیں بھی کوئي آیت نہیں جس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہو کہ مرد اپنی بیوی کودانتوں سے کاٹ سکتا ہے ۔
1 - قرآن کریم تو خاوند کوحکم دیتا ہے کہ واپنی بیوی کے ساتھ احسان کرے ، اوراس سےحسن معاشرت سے پیش آئے ، حتی کہ اگر قلبی محبت ختم بھی ہوجائے توپھر بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے اس کے بارہ میں قرآن مجید میں کچھ اس طرح بیان کیا گيا ہے :
اوران کے ساتھ اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اختیار کرو ، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ہی ممکن ہے کہ تم کسی چيز کوبرا جانو ، اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی بھلائي کردے النساء ( 19 ) ۔
2 - قرآن مجید نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ عورت کے اپنے خاوند پر کچھ حقوق ہیں ، اوراسی طرح خاوند کے بھی اس کی بیوی پرکچھ حقوق ہیں ، ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید بیان کرتا ہے :
اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کوعورتوں پر فضیلت ہے اوراللہ تعالی غالب ہے حکمت والا ہے البقرۃ ( 228 ) ۔
تومندرجہ بالا آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کوعورت پر کچھ زيادہ حق حاصل ہیں جو کہ خرچہ وغیرہ میں اس کی مسؤلیت اورذمہ داری کے بدلہ میں ہیں ۔
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کواپنی بیوی کے بارہ میں احسان اوراس کی عزت کرنے کی وصیت فرمائی ہے ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لوگوں میں سب سے بہتر ہی اس شخص کوقرار دیا جو اپنی اہل عیال کے ساتھ احسان کرتا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم میں سے سب سے بہتر اوراچھا وہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے اچھا ہے ، اورمیں اپنے گھروالوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1977 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو صحیح سنن ترمذي میں صحیح قرار دیا ہے ۔
4 - اوربیوی کے ساتھ احسان اوراچھے سلوک کے بارہ میں جوسب سے بہتر اورخوبصورت ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی کوکھلانا اوراس کے منہ میں لقمہ ڈالنا یہ اس کے لیے صدقہ کا درجہ رکھتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( آپ جوبھی نفقہ کرتےہیں اس کا اجرملتا ہے حتی کہ وہ لقمہ جوآپ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہیں وہ بھی ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6352 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1628 ) ۔
4 – اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :
( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : ( جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہوں ) کا معنی یہ ہےکہ :
وہ انہیں گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اپنے گھرمیں داخل کرنا اوربٹھانا پسند نہیں کرتے چاہے وہ اجنبی مرد ہویا پھرکوئي عورت ، یا خاوند کے رشتہ دار ان سب کویہ نہی شامل ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالی کی کلام ختم ہوئی ۔
تواس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر بیوی خاوند کی نافرمانی اورمخالفت کرتی ہے تواسے شدید مارنہیں بلکہ ہلکہ سامارا جاسکتا ہے ۔
اوریہ بھی اسی طرح ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :
اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرو ، اورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اورانہیں مار کی سزا دواگر تو وہ تمہاری بات مان کراطاعت کرلیں توپھر ان پرکوئي راہ نہ تلاش کرو یقینا اللہ تعالی بلندوبالا بڑا ہے النساء ( 34 ) ۔
توجب عورت اپنے خاوند کے خلاف سرکشی کرے اوراس کی مخالفت کرے اوربات تسلیم نہ کرے تووہ اس کے ساتھ یہ تین طریقے استعمال کرے سب سے پہلے وعظ ونصیحت اورپھر بسترسے علیحدگي ، اورپھر آخر میں مار لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ شدید قسم کی مار نہ ہوجس سے اسے زخم ہویا پھر ہڈی ٹوٹنے کا خدشہ ہو ۔
حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یعنی ایسی مار جوکہ اپنا اثر نہ چھوڑے ۔
اورعطاء رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے غیر مبرح مار کے بارہ میں سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ مسواک وغیرہ سے مارے ۔
تواس مار سے عورت کی توہین اوراسے اذیت دینا مقصود نہیں بلکہ اسے صرف یہ محسوس اورشعور دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے حق میں غلطی کررہی ہے ، اوراس کے خاوند کواسے صحیح اوراس کی اصلاح کے لیے حق حاصل ہے ۔
واللہ اعلم .