"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
" يہ قول صحيح نہيں ہے، ميرى مراد يہ ہے كہ جس نے فرضى حج كر ليا تو وہ دوسرے كو حج كرنے كا موقع دے، كيونكہ كتاب و سنت كى نصوص حج كى فضيلت پر دلالت كرتى ہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" حج اور عمرہ كے مابين متابعت كرو( يعنى كرتے رہو ) كيونكہ يہ دونوں گناہوں اور فقر كو ايسے ختم كرتے ہيں جيسے بھٹى لوہے اور سونے و چاندى كى ميل كو ختم كرتى ہے "
ايك عقلمند انسان كے ليے حج پر جانا اور دوسروں كو تكليف اور اذيت نہ دينا ممكن ہے، وہ اس طرح كہ وہ لوگوں كے ساتھ نرمى اور اچھا برتاؤ كرے اور جب اسے وسعت كا موقع حاصل ہو تو حسب استطاعت اور قدرت كے مطابق اطاعت و فرمانبردارى كا كام كرے، اور اگر جگہ تنگ ہو تو وہ اس تنگى كو مدنظر ركھتے ہوئے اس كے مطابق كام كرے جو اس تنگ جگہ كا تقاضا ہو، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب عرفات سے نكلے تو آپ لوگوں كو آرام اور سكون كے ساتھ چلنے كى تلقين كرتے رہے، بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى اونٹنى كى لگام اتنى كھينچ ركھى تھى اونٹنى كى گردن گھٹ رہى تھى تا كہ وہ تيزى سے نہ چلے، ليكن جب اسے كھلى جگہ ملى تو اونٹنى كو بھگايا.
علماء كرام كہتے ہيں كہ: جب انہيں كھلى اور وسيع جگہ ميسر آئى تو تيز چلے، جو اس بات كى دليل ہے كہ حج كرنے والے شخص كو حالات كے مطابق چلنا چاہيے جب تنگ جگہ ہو تو وہ بڑے آرام اور سكون سے چلے، اور لوگوں كے ساتھ نرمى كا برتاؤ كرے، تو اس طرح وہ دوسروں تكليف اور اذيت سے محفوظ ركھ سكتا ہے.
اس مسئلہ ميں ہمارى رائے يہى ہے كہ وہ حج كرے اور حج ميں اللہ تعالى سے مدد و معاونت طلب كرے، اور اس پر جو واجبات لازم ہوتے ہيں ان كى ادائيگى كرے، اور حرص ركھے اور كوشش كرے كہ كسى بھى حاجى كو اذيت نہ پہنچے، اور حسب استطاعت تكليف سے بچے.
اور اگر فرض كريں اگر كوئى حج سے بھى زيادہ نفع مند مصلحت ہو مثلا بعض مسلمان جھاد فى سبيل اللہ ميں اس رقم كے محتاج ہوں تو نفلى حج سے جھاد فى سبيل اللہ افضل ہے، تو اس وقت يہ رقم مجاہدين كو دے دى جائے گى يا پھر مسلمانوں پر قحط سالى اور بھوك كا دور ہو تو پھر اس حالت ميں بھى يہ رقم اس بھوك كو مٹانے كے ليے صرف كرنا حج كرنے سے افضل ہے" انتہى .