الحمد للہ.
اول:
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا لازمی ہے کہ اللہ تعالی جو بھی شرعی حکم دیتا ہے اس میں سب سے بہترین حکمت ہوتی ہے، ان حکمتوں کی بدولت بہترین فوائد حاصل ہوتے ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی جاننے والا ہے کہ وہ ہر چیز کا اس نے علم کے ذریعے احاطہ کیا ہوا ہے، وہ حکمت والا بھی ہے کہ وہ کوئی بھی کام کسی حکمت کی بنا پر ہی شریعت میں شامل فرماتا ہے۔
دوم:
فرضیتِ زکاۃ کی حکمت
اہل علم نے فرضیتِ زکاۃ کی بہت سی حکمتیں ذکر کی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- زکاۃ سے بندے کا اسلام کامل اور پورا ہوتا ہے؛ کیونکہ زکاۃ اسلام کا رکن ہے، چنانچہ جب انسان زکاۃ دے تو اس سے انسان کا اسلام پورا اور کامل ہو جاتا ہے، اور تکمیل ایمان مسلمان کا بہت بڑا ہدف ہے کیونکہ ہر مسلمان یہ چاہتا ہے کہ اس کا اسلام مکمل ہو۔
- زکاۃ کی ادائیگی زکاۃ دہندہ کے سچے ایمان کی دلیل ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دولت سے بہت محبت کرتا ہے، اور محبوب چیز تبھی خرچ کی جاتی ہے جب اسی جیسی یا اس سے بڑھ کر محبوب چیز کا حصول مطلوب ہو، بلکہ زیادہ محبوب چیز کے حصول میں کم محبوب چیز خرچ کر دی جاتی ہے، اسی لیے زکاۃ کو "صدقہ" بھی کہتے ہیں؛ کیونکہ یہ زکاۃ دہندہ کی رضائے الہی کی صادق جستجو کی دلیل بھی ہوتی ہے۔
- زکاۃ کی ادائیگی زکاۃ دہندہ کے اخلاق سنوارتی ہے، چنانچہ اس طرح زکاۃ دہندہ کنجوس لوگوں کے زمرے سے نکل جاتا ہے، اور سخی لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے؛ چنانچہ جب انسان بانٹنے کی عادت بنا لے چاہے علم بانٹے ، یا مال بانٹے ، یا مسلسل دوسروں کی عزت افزائی کرے تو یہ اس کی فطرت میں شامل ہو جائے گا بلکہ اگر کسی دن اپنی یومیہ عادت کے مطابق خرچ نہ کرے تو اس کی طبیعت بوجھل رہنے لگتی ہے، بالکل ایسے جیسے شکار کے رسیا شخص کو شکار کرنے کا موقع نہ ملے تو اس کی طبیعت بوجھل رہتی ہے، تو یہی حالت روزانہ سخی شخص کی ہوتی ہے کہ اگر کسی دن اسے اپنی دولت، عزت یا خدمت کے ذریعے کسی کا بھلا کرنے کا موقع نہ ملے تو وہ بوجھل سا رہتا ہے۔
- زکاۃ کی ادائیگی سے شرح صدر ہوتی ہے، کیونکہ انسان جب کوئی بھی چیز دوسروں کو دے خصوصاً مال تو اپنے دل میں خوشی محسوس کرتا ہے، یہ بات تو تجربہ شدہ بھی ہے۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس نے دل کی خوشی سے خرچ کیا ہو، ایسا نہ ہو کہ خرچ کرنے کے بعد بھی اس کا دل اس مال کے پیچھے ہو۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" میں ذکر کیا ہے کہ خرچ کرنا اور بانٹنا شرح صدر کا باعث بنتا ہے، لیکن شرح صدر صرف اسی شخص کی ہوتی ہے جو دل کی خوشی سے خرچ کرے اور بانٹے، مال کے ہاتھ سے نکلنے سے قبل اسے اپنے دل سے نکال دے، لہذا اگر کوئی اپنے ہاتھ سے تو مال نکال دے لیکن دل میں مال باقی رہے تو اسے مذکورہ شرح صدر حاصل نہیں ہوتی۔
- زکاۃ کی ادائیگی انسان کو کامل مومنوں کے ساتھ ملا دیتی ہے؛ حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (اس وقت کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔)تو جس طرح آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنا مال خرچ کریں، تو آپ یہی مال اپنے بھائی کو دینا پسند کرتے ہیں تو یہ آپ کے کامل ایمان ہونے کی علامت ہے۔
- زکاۃ کی ادائیگی جنت میں داخلے کا سبب ہے؛ کیونکہ جنت ایسے لوگوں کے لیے ہے جو: (اچھی گفتگو کرے، سلام عام کرے، کھانا کھلائے، رات کو نماز پڑھے کہ جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔) اور ہم سب جنت میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
- زکاۃ کی ادائیگی سے پورا اسلامی معاشرہ ایک خاندان کی شکل اختیار کر لیتا ہے، چنانچہ مالدار لوگ نادار افراد کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں، غنی شخص تنگ دست کا سہارا بنتا ہے، جس سے انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے اپنے بھائیوں کے ساتھ بھلائی اسی طرح کرنی چاہیے جیسے اللہ تعالی نے اس کا بھلا کیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ترجمہ: اسی طرح تو بھی بھلائی کر جیسے اللہ تعالی نے تیرا بھلا کیا ہے۔[القصص: 77] اس طرح پوری امت اسلامیہ ایک خاندان کی مانند ہو جائے گی، اسی کو معاصر لوگ سوشل ویلفیئر کا نام دیتے ہیں، زکاۃ اس کا بہترین طریقہ کار ہے؛ اس لیے زکاۃ کی ادائیگی سے انسان اپنا فریضہ بھی ادا کرتا ہے اور اپنے بھائیوں کا بھلا بھی کرتا ہے۔
- اس سے غریب لوگوں میں مالداروں کے خلاف پائی جانے والی نفرت بھی کم ہوتی ہے؛ کیونکہ فقیر جب کسی مالدار شخص کو دیکھے کہ وہ نت نئی گاڑیوں میں گھوم رہا ہے، عالی شان محلات میں رہ رہا ہے، من چاہے کھانے کھا رہا ہے جبکہ اس فقیر کے پاس دو ٹانگوں کے علاوہ کوئی سواری نہیں ہے، سونے کے لیے زمین ہے ، یا اسی طرح کے دیگر خیالات اس کے ذہن میں گھومتے ہیں، تو جب ایسے امیر لوگ غریبوں کے پاس خود چل کر آئیں اور ان کی مدد کریں ، اور ان کے دکھ درد زکاۃ تقسیم کر کے بانٹیں تو غریب لوگوں کے دل میں یہ بات آئے گی کہ ان کے بھائی تنگی میں ان کا خیال رکھے ہوئے ہیں، اس طرح وہ امیروں سے مانوس ہوں گے اور ان سے محبت کریں گے۔
- اس سے چوری، ڈاکے اور غصب جیسے مالی جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے؛ کیونکہ غریب کی ضرورت پوری ہو رہی ہے ، اور وہ امیروں کے بارے میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے مال میں سے انہیں دیتے ہیں، چنانچہ غریب لوگ ان پر جارحیت دکھانے کی بجائے ان کا خیال رکھیں گے۔
- زکاۃ کی ادائیگی سے قیامت کے دن کی گرمی سے تحفظ ملتا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا) اس حدیث کو البانیؒ نے "صحيح الجامع" (4510) میں صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن اللہ تعالی کا سایہ پانے والوں کے بارے میں فرمایا: (ایک وہ شخص جو صدقہ کرتے ہوئے اتنا چھپا کر دیتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ دائیں نے کیا صدقہ کیا ہے۔) متفق علیہ
- زکاۃ کی ادائیگی کی وجہ سے انسان کو اللہ تعالی کے بتلائے ہوئے شرعی احکام سیکھنے پڑتے ہیں؛ کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی تبھی ہو گی جب وہ زکاۃ کے احکام، زکاۃ واجب ہونے والے اموال ، زکاۃ کا نصاب ، اور زکاۃ کے مستحقین کا علم حاصل کرنا پڑے گا اور زکاۃ کی ادائیگی کے لیے دیگر چیزیں بھی سیکھنی پڑ سکتی ہیں۔
- زکاۃ کی ادائیگی سے مال میں اضافہ ہوتا ہے، یعنی زکاۃ ادا کرنے سے مال حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ جس وقت انسان صدقہ کرے تو صدقے کی وجہ سے اس کا مال آفات سے محفوظ رہتا ہے، بسا اوقات صدقہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے لیے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے، اسی لیے حدیث مبارکہ میں بھی ہے کہ: (صدقہ کسی بھی مال کو کم نہیں کرتا۔) مسلم: (2588)۔ یہ چیز بھی مشاہدے میں آ چکی ہے کہ بخیل انسان کے مال پر بسا اوقات ایسی چیز مسلط ہو جاتی ہے جو اس کے سارے یا اکثر مال کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے، مثلاً: آگ لگ جاتی ہے، یا خسارہ ہو جاتا ہے، یا ایسی بیماریوں میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے جس کے علاج میں ساری دولت سرف ہو جاتی ہے۔
- زکاۃ کی ادائیگی خیر نازل ہونے کا سبب بنتی ہے، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (کوئی بھی قوم اپنے اموال کی زکاۃ روکتی ہے تو ان کے لیے آسمان سے بارش روک دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الجامع: (5204) میں صحیح قرار دیا ہے۔
- صدقہ کی ادائیگی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (خفیہ صدقہ اللہ کے غضب کو مٹاتا ہے) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الجامع: (3759) میں صحیح قرار دیا ہے۔
- صدقہ کی ادائیگی انسان کو بری موت سے بچاتی ہے۔
- صدقہ کرنا چاہیے؛ کیونکہ صدقہ آسمان سے آنے والی آفت کو زمین تک پہنچنے سے روکتا ہے۔
- صدقہ کرنے سے خطائیں مٹتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (صدقہ گناہ کو ایسے ہی مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو مٹا دیتا ہے۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الجامع: (5136) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھیں: "الشرح الممتع" (6/4-7)
واللہ اعلم