"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نماز ترك كرنا اسلام كے عملى اركان ميں سے ايك ركن كو منہدم كرنا ہے، چنانچہ نماز دين اسلام كا ستون اور اس كا اساسى ركن ہے، اور تارك نماز كے ساتھ كسى بھى قسم كسى بھى حالت ميں سستى نہيں برتنى چاہيے، بلكہ اس كے رشتہ دار اور عزيز و اقارب كو چاہے كہ وہ بے نماز كو نصيحت كرنے كے ساتھ اس كى راہنمائى بھى كريں، ليكن اگر وہ پھر بھى تسليم نہيں كرتا تو اس سے بائيكاٹ كرتے ہوئے اس كو سلام بھى نہ كريں، اور نہ ہى اس كے ساتھ بيٹھ كر كھائيں پئيں اور بيٹھيں، بلكہ اسے اس كے عظيم جرم كا احساس دلائيں ہو سكتا ہے وہ اسى طرح اپنے رب كى طرف رجوع كرتا ہوا توبہ كر لے.
تارك نماز كے متعلق علماء كرام كا موقف درج ذيل دو قولوں ميں بيان كيا جا سكتا ہے:
پہلا قول:
تارك نماز كافر ہے، عمر، على اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى قول مروى ہے، اور حسن، شعبى، اوزاعى، عبد اللہ بن مبارك، اور محمد بن حسن رحمہم اللہ كا بھى يہى كہنا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے ايك روايت يہى ہے.
انہوں نے درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم سے استدلال كيا ہے:
" بندے اور كفر كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "
اسے امام مسلم اور امام احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.
دوسرا قول:
وہ كافر نہيں، يہ امام ابو حنيفہ، امام مالك، امام شافعى رحمہم اللہ كا قول ہے، انہوں نے عبادۃ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى نے بندے پر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كى ہيں، چنانچہ جو بھى ان كى ادائيگى كرے اور ان كے حق كو ہلكا سمجھتے ہوئے ان ميں سے كوئى نماز ضائع نہ كرے تو اللہ تعالى كى ذمہ دارى ہے اسے جنت ميں داخل كرے، اور جو كوئى انہيں ادا نہيں كرتا تو اس كے ليے اللہ تعالى كے ساتھ كوئى عہد اور ذمہ نہيں، اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اور اگر چاہے تو اسے جنت ميں داخل كر دے "
اسے امام دارمى نے مسند دارمى حديث نمبر ( 1531 ) ميں اور امام مالك نے الموطا حديث نمبر ( 248 ) اور امام احمد نے مسند احمد حديث نمبر ( 21690 ) ميں روايت كيا ہے.
اس كے باوجود دونوں فريق اس پر متفق ہيں كہ اگر وہ نماز ترك كرنے سے باز نہيں آتا تو اسے توبہ كے ليے تين روز كا موقع ديا جائيگا، اگر وہ انكار كرتا ہے تو اس كا انجام قتل ہے.
واللہ اعلم .