اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

عيسائى شخص كے ساتھ زنا كے بعد مسلمان سے شادى كر لى تو اس كى اولاد كا حكم كيا ہو گا

29-04-2012

سوال 44600

ايك مسلمان لڑكى نے عيسائى شخص كے ساتھ بغير عقد شرعى كے كچھ وقت بسر كيا اور پھر ايك مسلمان شخص سے شادى كر لى، اس كے اس عمل كا حكم كيا ہے، اور كيا وہ اپنے مسلمان خاوند كے ليے حلال ہے يا نہيں ، اور مسلمان سے پيدا شدہ اولاد كا حكم كيا ہو گا ؟
سلامتى اس پر ہے جو ہدايت كى پيروى كرے

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس عورت كو اپنے كيے پر شديد نادم ہوتے ہوئے اس گناہ كبيرہ سے توبہ كرنى چاہيے، اور پختہ عزم اور ارادہ كرے كہ آئندہ ايسا نہيں كريگى، اور اس كے ساتھ ساتھ بقدر استطاعت كثرت سے اعمال صالحہ كرے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا ميں بہت ہى زيادہ بخش دينے والا ہوں اس شخص كو جو توبہ كرتا اور ايمان لاتا اور نيك وصالح اعمال كرتا اور پھر ہدايت پر چل نكلتا ہے طہ ( 82 ).

اس سلسلہ ميں دين كا حكم واضح ہے، زنا فحاشى اور كبيرہ گناہ اور بہت ہى شنيع و قبيح جرم ہے، اس گناہ كا مرتكب شخص اس عظيم حرمت كو پامال كرنے كى بنا پر اللہ كى لعنت و غضب اور اللہ كى ناراضگى كا مستحق ٹھرتا ہے.

ايسے شخص كى دنيا ميں سزا يہ ہے كہ اگر شادى شدہ نہيں تو سو كوڑے مارے جائيں، اور اگر شادى شدہ ہے تو موت تك پتھر مار مار كر رجم كيا جائے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.

ليكن جو شخص اس كا ارتكاب كرنے كے بعد توبہ و استغفار كر ليتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كى برائيوں كو نيكيوں ميں تبديل كر ديتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں بناتے، اور نہ ہى وہ اللہ كى جانب سے حرام كردہ جان كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، جو كوئى بھى ايسا كرے اسے گناہ ہوگا، اور روز قيامت اسے ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ہميشہ اسى ميں رہےگا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے، اور اس نے نيك وصالح اعمال كيے تو يہى ہيں وہ لوگ جن كى برائيوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں تبديل كر ديگا اور اللہ سبحانہ و تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الفرقان ( 68 - 70 ).

رہا مسئلہ اس كى مسلمان شخص سے شادى كا اگر تو يہ شادى توبہ كرنے اور استبراء رحم كرنے كے بعد ہوئى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر اس سے قبل ہوئى تو يہ حرام ہے، كيونكہ جس كے بارہ ميں زنا كرنے كا علم ہو جائے تو اس كا توبہ كيے بغير نكاح جائز نہيں، اور استبراء رحم ميں راجح قول يہى ہے كہ ايك حيض آنے سے استبراء رحم ہو جائيگا.

ليكن حنابلہ اور مالكيہ كہتے ہيں كہ مطلقہ عورت كى طرح زانيہ كا بھى تين حيض سے استبراء رحم ہوگا، ليكن پہلا قول ہى صحيح ہے، امام احمد سے ايك روايت يہى ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اس كى دليل كفار كے ساتھ مسلمانوں كى لڑائى ميں كافر عورت قيدى بن جاتى تو ايك حيض سے استبراء رحم كيا جاتا.

امام احمد نے مسند احمد حديث نمبر ( 11614 ) اور سنن ابو داود حديث نمبر ( 2157 ) اور سنن ترمذى حديث نمبر ( 1564 ) ميں ابو سعد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اوطاس كى قيدى عورتوں كے بارہ فرمايا تھا:

" كسى بھى حاملہ عورت سے وضح حمل سے قبل مباشرت نہ كى جائے، اور غير حاملہ سے ايك حيض آنے تك جماع نہ كيا جائے "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

استبراء رحم كا فائدہ يہ ہے كہ پتہ چل جائے كہ كہيں زنا كى بنا پر حمل تو نہيں ٹھر گيا، تا كہ نكاح كا پانى زنا كے پانى سے مختلط نہ ہو جائے.

اور اگر استبراء رحم كى مدت ميں نكاح كر ديا جائے تو يہ استبراء رحم ہونے تك نكاح فسخ ہو جائيگا، پھر استبراء رحم كے بعد اگر چاہے تو اس سے شادى كر سكتا ہے.

رہا اس كى اولاد كا حكم تو شادى كے بعد پہلے حمل ميں شبہ ہوتا ہے، اگر تو بچہ حمل كى كم از كم مدت يعنى شادى كے چھ ماہ سے بھى كم عرصہ ميں پيدا ہوا تو يہ بچہ خاوند كى طرف منسوب نہيں ہوگا، كيونكہ يہ حمل كى كم از كم مدت چھ ماہ سے بھى كم ميں پيدا ہوا ہے.

اور اگر شادى كى تاريخ سے چھ ماہ يا اس سے بعد ميں پيدا ہوا تو يہ خاوند كى طرف منسوب كيا جائيگا، اور اس كا بيٹا شمار ہوگا، چاہے توبہ كے بغير بھى شادى ہوئى ہو، يا استبراء رحم كيے بغير شادى ہوئى تو اس شرط كے ساتھ بچہ خاوند كى طرف منسوب ہوگا يعنى چھ ماہ يا اس سے بعد پيدا ہوا ہو.

مزيد تفصيل كے ليے آپ المغنى ( 7 / 108 ) اور الفتاوى الكبرى ابن تيميہ ( 3 / 176 ) اور مواھب الجليل ( 3 / 413 ) كا مطالعہ كريں.

يہاں ہم يہ متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ " السلام على من الھدى " كے الفاظ تو كافر شخص كو كہے جاتے ہيں، كہ جب كافر شخص كو ليٹر لكھا جائے تو يہ الفاظ لكھے جائيں گے كسى مسلمان شخص كو ليٹر لكھتے وقت نہيں.

كشاف القناع ميں درج ہے:

" اگر كسى كافر كو خط لكھا اور اس ميں سلام لكھنا چاہے تو وہ اس طرح لكھے: سلام على من اتبع الھدى " كيونكہ يہ جامع معنى ميں ہے " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 3 / 130 ).

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب ارد گرد كے كفار بادشاہوں مثلا قيصر و كسرى اور مقوقس وغيرہ كو خط لكھے تو يہى الفاظ استعمال كيے تھے.

واللہ اعلم.

عقد نکاح
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔