"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ دن اور رات كى نفلى نماز ميں افضل يہ ہے كہ وہ دو دو ركعت كر كے ادا كى جائے، بلكہ بعض علماء كرام مثلا امام احمد تو اسے واجب كہتے ہيں، ان كا كہنا ہے كہ اگر وہ دو ركعت سے زيادہ ايك ہى سلام كے ساتھ ادا كرتا ہے اس كى نماز صحيح نہيں، ليكن وتر ادا ہو سكتے ہيں كيونكہ يہ ثابت ہيں.
اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رات اور دن كى نماز دو دو ہے"
سنن ترمذى حديث نمبر ( 597 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1295 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1666 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1322 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " تمام المنۃ" صفحہ نمبر ( 240 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور" دو دو " كا معنى دو دو ركعت ہے، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اس كى شرح اسى طرح بيان كى ہے.
صحيح مسلم ميں ہے كہ عقبہ بن حريث بيان كرتے ہيں ميں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو كہا: دو دو كا معنى كيا ہے ؟
تو انہوں نے كہا: ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرا جائے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ: " مثنى مثنى " اس كا معنى ہے كہ: دو دو لہذا اكٹھى چار ركعت ادا نہيں كى جائينگى، بلكہ دو دو ركعت كر كے ادا ہو گى، كيونكہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے:
" ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتے ہوئے كہا: رات كى نماز كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دو دو اورجب تم ميں سے كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت پڑھ لے جو اس كى ادا كردہ نماز كو وتر بنا لے گى"
اور رہا مسئلہ دن كى نماز كا تو اس كے متعلق اہل سنن نے حديث روايت كى ہے، اور علماء كرام نے اس كى تصحيح ميں اختلاف كيا ہے.
اور صحيح يہى ہے كہ يہ ثابت ہے جيسا كہ امام بخارى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے، تو اس بنا پر رات اور دن كى نماز دونوں ہى دو دو ركعت ہونگى اور ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرا جائےگا، اور ہر حديث جس ميں چار كا لفظ ہو اور اس ميں سلام كى نفى كى تصريح نہ پائى جائے تو اسے اس قاعدہ پر ليا جائےگا، يعنى جس حديث ميں چار كعت كا لفظ ہو اور اس ميں سلام پھيرنے كى نفى كى صراحت نہ ہو تو اسے دو ركعت كے بعد سلام پھيرنے پر محمول كرنا واجب ہے، كيونكہ قاعدہ يہى ہے، اور جزئيات كو قاعدہ پر محمول كيا جائےگا.
لہذا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے جب رمضان ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں فرمايا:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رمضان اور غير رمضان ميں گيارہ ركعت سے زيادہ ادا نہيں كرتے تھے، چار ركعت پڑھتے، آپ ان ركعت كے حسن اور طوالت كے متعلق كچھ نہ پوچھيں "
اس سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ چار ركعت ايك ہى سلام كے ساتھ ادا كرتے، ليكن اس ظاہر كو عام قاعدہ پر محمول كيا جائيگا وہ يہ كہ: رات كى نماز دو دو ركعت ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ ثابت ہے، اور يہ كہا جائے گا كہ: انہوں نے چار عليحدہ ذكر كيں اور پھر چار كو عليحدہ ذكر كيا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چار ركعت ادا كر كے كچھ دير استراحت كرتے تھے، اس كى دليل لفظ " ثم " كا استعمال ہے، جو كہ ترتيب اور مہلت كے ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 76 - 77 ).
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث پر صحيح ابن خزيمہ ميں ابن خزيمہ رحمہ اللہ تعالى نے يہ كہتے ہوئے باب باندھا ہے:
" دن اور رات كى سارى نفلى نماز ميں دو دو ركعت ميں سلام پھيرنے كا باب "
اور اس كے بعد يہ باب لائے ہيں:
" دن كى نفلى نماز چار ركعت ہيں نہ كہ دو كے قائلين حضرات كے خلاف دلالت كرنے والى اخبار اور نصوص كے ذكر ميں باب "
اور اس پر بہت سے دلائل ذكر كيے ہيں كہ دن كى نفلى نماز دو دو ركعت ہيں.
ديكھيں: صحيح ابن خزيمہ ( 2 / 214 ).
اور يہ حديث: " اللہ تعالى اس شخص پر رحم كرے جو عصر كے قبل چار ركعت ادا كرتا ہے "
اسے مندرجہ بالا پر ہى محمول كيا جائيگا كہ دو دو ركعت ادا كرے.
ابن حبان رحمہ اللہ كہتے ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" چار ركعت " اس سے مراد دو سلام كے ساتھ چار ركعت ہے، كيونكہ يعلى بن عطاء عن على بن عبد اللہ الازدى عن ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے طريق سے وارد روايت ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رات اور دن كى نماز دو دو ہے "
صحيح ابن حبان ( 6 / 206 ) اور اسى طرح ( 6 / 231 ) ميں بھى ہے ـ ان چار ركعت ميں جو جمعہ كے بعد ہيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مسلمان كے ليے مشروع ہے كہ وہ دن اور رات كو دو دو ركعت كر كے نفل ادا كرے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رات كى نماز دو دو ہے "
متفق عليہ.
اور ايك دوسرى صحيح روايت ميں ہے:
" رات اور دن كى نماز دو دو ہے "
اسے امام احمد اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے.
ديكھيں مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 390 ).
سنن مؤكدہ كے متعلق تفصيل جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1048 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .