"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا پينٹ ميں نمازا ادا كرنى باطل ہے، كيونكہ ميں نے بعض لوگوں سے ايسا سنا ہے، اس ليے كہ پينٹ شرمگاہ كا حجم واضح كرتى ہے ؟
الحمد للہ.
اللہ سبحانہ وتعالى نے نماز ادا كرتے وقت زيبائش اور خوبصورتى اختيار كرتے ہوئے لباس پہننے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اے بنى آدم مسجد كى حاضرى كے وقت زيبائش اختيار كيا كرو ، اور كھاؤ پيؤ اور اسراف مت كرو، كيونكہ اللہ تعالى اسراف كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا الاعراف ( 31 ).
چنانچہ مسلمان شخص كو نماز كے وقت زيبائش و خوبصورتى اختيار كرنے كا مامور ہے، ايسا نہيں جيسا كہ ـ افسوس سے كہنا پڑتا ہے ـ بعض لوگ سونے والا لباس پہن كر ہى نماز ادا كر ليتے ہيں، يا پھر كام كاج وغيرہ گندہ لباس ہى پہن كر نماز ادا كرتے ہيں، اور نماز كے ليے كوئى خوبصورتى اختيار نہيں كرتے، حالانكہ اللہ تعالى خوبصورت ہے، اور خوبصورتى كو پسند فرماتا ہے.
علماء كرام نے ستر چھپانا كم ازكم خوبصورتى قرار دى ہے، اسى ليے انہوں نے نماز ميں ستر چھپانا نماز صحيح ہونے كى شروط ميں ايك شرط قرار دي ہے، چنانچہ ستر ننگا ہونے كى حالت ميں نماز صحيح نہيں ہو گى.
" ستر چھپانے " كا تقاضا يہ ہے كہ ستر چھپانا واجب ہے، اور جس چيز سے بھى ستر چھپ جائے نماز صحيح ہو گى، چاہے وہ لباس تنگ ہو اور شرمگاہ كے حجم كو واضح كرتا ہو.
مختلف فقہى مذاہب كے علماء كرام نے صراحتا يہى بيان كيا ہے، ذيل ميں ہم ان كے اقوال پيش كرتے ہيں:
حنفى مذہب:
الدر المختار ميں ہے:
اور ساتھ چپك جانا، اور شكل واضح كرنا نقصان دہ نہيں. اھـ
ديكھيں: الدر المختار ( 2 / 84 ).
يعنى نماز ميں ايسا لباس پہننا نقصان دہ نہيں ہو گا.
در مختار كے حاشيہ ميں ابن عابدين كہتے ہيں:
قولہ: اس كا ساتھ چپكنا نقصان دہ نہيں "
يعنى مثلا اس كا سرينوں ( چوتڑ ) كے ساتھ چپك جانا كوئى نقصان دہ نہيں ہے.
اور " شرح المنيۃ " كى عبارت ہے:
ليكن اگر وہ اتنا موٹا ہو كہ اس سے چمڑے كى رنگت نظر نہ آتى ہو ليكن وہ عضو كے ساتھ چپكا ہوا ہو، اور اس كى شكل بھى واضح كرے كہ ديكھنے ميں بالكل عضو كى شكل ہو، تو نماز كے جواز سے منع نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ ستر چھپا ہوا ہے" انتہى
ابن عابدين كى كلام ختم ہوئى.
دوم:
شافعى مسلك:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر اس كا رنگ چھپا ہوا ہو، اور جسم اور چمڑا كا حجم ظاہر ہو مثلا گھٹنا اور سرين ( چوتڑ ) وغيرہ تو ستر چھپا ہونے كى بنا پر نماز صحيح ہو گى.
اور دارمى اور صاحب البيان نے توجيہ كرتے ہوئے بيان كيا ہے كہ:
جب حجم ظاہر كرے تو اس كى نماز صحيح نہيں، يہ ظاہرى طور پر غلط ہے. اھـ
امام نووى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 176 ).
سوم:
مالكى مسلك:
الفواكہ الدوانى ميں ہے:
" مرد كى ايك كپڑا ميں نماز ہو جاتى ہے "
اس ميں بطور ندب يہ شرط لگائى جاتى ہے كہ لباس اتنا موٹا ہو كہ جسم كا وصف ظاہر نہ ہو اور نہ ہى اس كى رنگت ظاہر ہوتى ہو، وگرنہ مكروہ ہو گا، كيونكہ وہ سارے جسم كو چپھائے ہوئے ہے، اس ليے كہ اگر ستر مغلظ ( دبر اور قبل ) چھپى ہوئى ہو ، يا پھر وہ لباس وصف بيان كرے يعنى شرمگاہ كا حجم ظاہر كرتا ہو .... تو اس ميں نماز ادا كرنا مكروہ ہے، اور وقت كے اندر نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى " انتہى مختصرا.
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 1 / 216 ).
چنانچہ يہاں انہوں نے شرمگاہ كى تحديد كرنے والے لباس ميں نماز ادا كرنى مكروہ بيان كى ہے، حرام نہيں.
اور حاشيۃ الدسوقى ميں ہے:
" شرمگاہ كے حجم كو ظاہر كرنے والے لباس ميں ادا كى گئى نماز صحيح ہے، ليكن وہ مكروہ ہو گى، اور يہ كراہت تنزيہى ہے، اگر وقت باقى ہو تو اس كے ليے وقت ميں نماز دوبارہ ادا كرنا مستحب ہے "
اور بلغۃ السالك ميں ہے:
" اور ستر چھپانے والا لباس موٹا ہونا چاہيے جو بادى الرائے ميں جسم كى رنگت بيان نہ كرے، نہ تو بالكل رنگت واضح كرے، اور نہ ہى غور سے ديكھنے پر رنگت كا علم ہوتا ہو، ليكن اگر ابتدائى نظروں ميں ہى وہ رنگت بيان كرتا ہو تو اس لباس كا ہونا نہ ہونے كے برابر ہو گا ( يعنى گويا كہ اس نے بے لباس اور ننگے ہو كر نماز ادا كى ہے، كيونكہ ستر ہى چھپا ہوا نہيں ) ليكن اگر غور سے ديكھنے كے بعد رنگت نظر آتى ہو تو پھر وقت ہوتے ہوئے نماز دوبارہ ادا كرے گا، مثلا شرمگاہ كے حجم كى تحديد ہوتى ہو اور اس كى رنگت نظر آئے، كيونكہ متعبر يہى ہے كہ اس حالت ميں نماز ادا كرنا كراہت تنزيہ ميں شامل ہوتا ہے" انتہى بتصرف
ديكھيں: بلغۃ السالك ( 1 / 283 ).
چہارم:
مذہب حنبلى:
بہوتى رحمہ اللہ " الروض المربع " ميں بيان كرتے ہيں:
" لباس ميں عضو كا حجم واضح نہ ہونا معتبر نہيں، كيونكہ اس سے اجتناب ممكن نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: الروض المربع ( 1 / 494 ).
ابن قاسم " الروض المربع " كے حاشيہ بہوتى كے قول پر تعليقا كہتے ہيں:
ان كے ساتھ موافقت ميں " اھـ
يعنى آئمہ ثلاثہ ابو حنيفہ، مالك، شافعى رحمہم اللہ كے ساتھ موافقت كرتے ہوئے.
يعنى اس مسئلہ ميں امام احمد رحمہ اللہ آئمہ ثلاثہ كے موافق ہيں.
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور اگر وہ اس كى رنگت چھپاتا ہو اور خلقت ظاہر كرے ( يعنى حجم كو بيان كرتا ہو ) تو نماز جائز ہے، كيونكہ اس سے احتراز ممكن نہيں " اھـ
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 287 ).
اور المرداوى " الانصاف " ميں لكھتے ہيں:
مجد بن تيميہ كا كہنا ہے:
عورت كے ليے اپنے لباس پر كوئى چيز باندھنا مكروہ ہے( يہ كہ وہ اپنے لباس پر بيلٹ وغيرہ باندھے ) تا كہ اس كے بدن كے اعضاء كا حجم ظاہر نہ ہو.
ابن تميم وغيرہ كہتے ہيں:
نماز ميں عورت كے ليے اپنے درميان ميں رومال اور بيلٹ وغيرہ باندھنا مكروہ ہے " انتہى بتصرف
ديكھيں: الانصاف ( 1 / 471 ).
اور فقہ السنۃ ميں سيد سابق كا كہنا ہے:
" وہ لباس پہننا واجب ہے جو ستر كو چھپائے، اور اگر چہ ستر چھپانے والا لباس تنگ اور چست ہو اور جسم كے اعضاء كى تحديد كرے " اھـ
ديكھيں: فقہ السنۃ ( 1 / 97 ).
چنانچہ اہل علم كے يہ اقوال تنگ اور شرمگاہ كى تحديد كرنے والے لباس ميں ادا كى گئى نماز كى صحت پر صريحا دلالت كرتے ہيں.
اس كا يہ معنى نہيں كہ لوگوں كو تنگ اور چست لباس پہننے كى دعوت دى جائے، بلكہ تنگ لباس نہيں پہننا چاہيے، اور نہ ہى ايسا لباس پہن كر اس ميں نماز ادا كرنى چاہيے، كيونكہ يہ نماز كے وقت خوبصورتى اور زيبائش اختيار كرنے كے حكم كے منافى ہے، بلكہ يہاں تو كلام يہ ہوئى ہے كہ اس ميں نماز ادا كرنا صحيح ہے يا نہيں ؟
فضيلۃ الشيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ تعالى نے ايسے چست اور تنگ لباس جس ميں عورت كے ستر كے حجم كى تحديد ہوتى ہو ميں ادا كردہ نماز صحيح ہونے كا فتوى ديا ہے، ليكن وہ ايسا لباس پہننے ميں گنہگار ہوگى.
شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:
" ايسا تنگ لباس جو جسم كے اعضاء اور عورت كے جسم اور اس كے سرين اور پچھلے حصہ اور جسم كے سارے جوڑوں كے حجم كو ظاہر كرے پہننا جائز نہيں، تنگ اور چست لباس نہ تو مردوں كے ليے پہننا جائز ہے، اور نہ ہى مردوں كے ليے، ليكن عورتوں كے ليے ايسا لباس پہننے كى ممانعت زيادہ شديد ہے، كيونكہ ان كے ساتھ فتنہ اور زيادہ ہوتا ہے.
ليكن ايسے لباس ميں نماز ادا كرنے كے متعلق يہ ہے كہ: اگر كسى شخص نے ايسے لباس ميں نماز ادا كى اور اس كا ستر اس لباس ميں چھپا ہوا ہو تو اس كى نماز صحيح ہو گى؛ كيونكہ ستر چھپا ہوا ہے، ليكن ايسا تنگ لباس پہننے پر وہ گنہگار ہے؛ اس ليے كہ لباس تنگ ہونے كى بنا پر نماز كے قوانين ميں كچھ خلل پيدا ہوگا، يہ تو ايك جانب سے ہے، اور دوسرى جانب سے يہ فتنہ كا باعث بھى ہے، اور پھر ايسے لباس والے كى طرف نظريں بھى اٹھنے كا باعث بنے گا، خاص كر جب ايسا لباس عورت پہن لے تو اور بھى شديد فتنہ كا باعث بنے گى.
اس ليے عورت پر واجب اور ضرورى ہے كہ كھلا لباس پہن كر اپنے آپ كو چھپا كر ركھے، اور اس كے كسى بھى عضو كا حجم ظاہر نہ ہوتا ہو، اور نہ ہى اس كى طرف نظريں اٹھنے كا باعث بنے، اور نہ ہى اس كا لباس باريك اور شفاف ہو، بلكہ عورت ايسا لباس زيب تن كرے جو اس كے سارے جسم كے ستر كو چھپا كر ركھے" انتہى.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان ( 3 / 454 ).
اور بعض علماء كرام نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" لباس پہنے ہوئے بھى عورتيں ننگى ہونگى "
كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ: ان عورتوں نے تنگ لباس پہنا ہو گا.
واللہ اعلم .