"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
داڑھى كا كچھ حصہ يا مكمل داڑھى منڈوانا اور كٹوانا معصيت و گناہ ہے جس كا ارتكاب نہيں كرنا چاہيے، اہل علم كے اجماع كے مطابق اگر معصيت كا مرتكب شخص مثلا داڑھى منڈوانے والا يا كوئى اور شخص صحيح طريقہ اور مشروع طريقہ كے مطابق نماز ادا كرتا ہے تو اس كى نماز صحيح ہے، اور اسى طرح اگر وہ شخص امام ہو تو علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق اس كے پيچھے نماز ادا كرنے والوں كى نماز بھى صحيح ہے.
ديكھيں: تحفۃ الاخوان تاليف الشيخ عبد العزيز بن باز ( 114 ).
اس كى امامت صحيح ہونے كى دليل يہ ہے كہ صحابہ كرام رضوان اللہ عليھم اجمعين نے ظلم و جور كرنے والے آئمہ كے پيچھے نماز ادا كى، چنانچہ عبد اللہ بن عمر اور انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما نے حجاج بن يوسف كے پيچھے نماز ادا كى.
امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كے ليے ـ يعنى حجاج ـ اتنا ہى كافى ہے كہ وہ فاسق تھا.
جب يہ ثابت ہے تو پھر كسى كے قول كا كوئى اعتبار نہيں كہ وہ كہتا پھرے ہمارے ليے واجب ہے كہ ہم اس امام كے پيچھے نماز ادا نہ كريں، بلكہ اگر اس كے پيچھے نماز ادا نہ كرنے كى بنا پر فساد يا تفرقہ اور نزاع اور اختلاف و شر پيدا ہوتا ہو تو اس امام كے پيچھے نماز ادا كرنا واجب ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ليكن اگر اس كے پيچھے نماز ادا نہ كرنے سے مقتدى كا جمعہ اور نماز باجماعت جاتى رہے تو اس شخص كے پيچھے نماز ادا كرنى ترك نہيں كى جائيگى، ليكن ايسے بدعتى شخص كے پيچھے جو صحابہ كرام كا مخالف ہو، اور اسى طرح اگر امام كو حكمران نے مقرر كيا ہو اور اس كے پيچھے نماز ترك كرنے ميں كوئى شرعى مصلحت نہ ہو تو اس كے پيچھے نماز ترك نہيں كى جائيگى، بلكہ اس كے پيچھے نماز ادا كرنا افضل ہے"
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 377 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى امام كو ناپسند كرنے والے لوگوں كى امامت كروانے كے متعلق كہتے ہيں:
" ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: اس كى امامت اس وقت مكروہ اور ناپسند ہو گى جب لوگ اسے كسى ايسے كام كى بنا پر ناپسند كريں جو شرعى طور پر مذموم ہو، مثلا ظالم والى اور گورنر، يا پھر جو امامت كا مستحق نہ تھا ليكن اس نے امامت پر قبضہ كر ليا، يا پھر وہ نجاست اور پليدگى سے اجتناب نہ كرتا ہو..
ليكن اگر ايسى كوئى چيز نہ ہو تو پھر كوئى كراہت نہيں... "
پھر امام نووى كہتے ہيں:
" ہم نے جو كہا ہے كہ اس كا امامت كروانا مكروہ ہے وہ امام كے ساتھ خاص ہے، ليكن وہ مقتدى جو اس كے پيچھے نماز ادا كرنا ناپسند كرتے ہيں ان كا اس امام كے پيچھے نماز ادا كرنا مكروہ نہيں " اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 172 - 173 ).
دوم:
رہا امام كى تبديلى كا مسئلہ اگر تو آپ اسے تبديل كر كے كسى ايسے شخص كو امام بنا سكتے ہيں جو اس سے زيادہ دينى علم اور دين پر عمل كرنے والا ہو اور ايسا كرنے ميں فساد اور فتنہ بھى پيدا نہ ہو تو ايسا كرنا بہتر ہے وگرنہ اسى امام كو باقى ركھنا بہتر ہے.
على الاعلانيہ طور پر معصيت كے مرتكب امام كو معزول كرنا اور امامت سے روك دينے كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ايك شخص امامت كروا رہا تھا كہ اس نے قبلہ رخ تھوك ديا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ديكھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ شخص تمہيں نماز نہ پڑھائے"
اس كے بعد جب اس نے نماز پڑھانا چاہى تو لوگوں نے اسے منع كرديا اور اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان كے متعلق بتايا، اور اس نے اس كا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں "
راوى كہتے ہيں: ميرے خيال ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فرمايا تھا:
" يقينا تو نے اللہ اور اس كے رسول كو اذيت دى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 480 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يہ اس وقت ہے جب ايسا كرنے سے كوئى اس سے بھى زيادہ فساد اور خرابى پيدا نہ ہو، ليكن اگر ايسا ہى تو پھر آپ اس كے پيچھے ہى نماز ادا كريں، اور امام كے فسق اور معصيت كى بنا پر آپ كا اس كے پيچھے نماز ادا نہ كرنا جائز نہيں، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر انسان كے ليے ممكن ہو كہ وہ علانيہ اور ظاہرى گناہ كرنے والے شخص كو امامت كے ليے آگے نہ كرے تو ايسا كرنا واجب ہے، ليكن اگر امام كو كسى دوسرے نے اس منصب پر فائز كيا ہو اور اسے امامت سے ہٹانا ممكن نہ ہو، يا پھر اسے ہٹانا تو ممكن ہو ليكن ايسا كرنے سے امام ميں پائى جانے والى خرابى سے زيادہ بڑا فساد اور خرابى لازم آئے، تو چھوٹى خرابى كو بڑى خرابى كے ساتھ دور كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى كسى خفيف كم ضرر و نقصان كو ختم كرنے كے ليے بڑے نقصان كو پيدا كرنا جائز ہے.
كيونكہ شرعيت اسلاميہ تو مصالح اور ان كى تكميل لے كے آئى ہے اور فساد و خرابى والى اشياء كو بالكل ختم يا پھر اس ميں حسب الامكان كمى كى ہے"
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 377 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 13465 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .