"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے پڑھا ہے كہ نماز عيد كے ليے جاتے ہوئے ايك راستہ اور واپسى كے ليے دوسرا راستہ اختيار كرتے، اس ميں كيا حكمت ہے ؟
الحمد للہ.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" عيد كے دن رسول كريم صلى اللہ عليہ سلم مختلف راستے پر چلتے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 986 ).
راستہ مختلف ہونے كا معنى يہ ہے كہ: ايك راستے سے جاتے تو واپسى دوسرے راستے سے آتے.
مومن شخص كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرنى چاہيے، چاہے اسے نبى كريم صلى اللہ عليہو سلم كے فعل كى حكمت كا علم ہو يا نہ.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
يقينا تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ ہے ہر اس شخص كے ليے جو اللہ تعالى كى اور قيامت كے دن كى توقع ركھتا اور اللہ تعالى كى بكثرت ياد كرتا ہے الاحزاب ( 21 ).
ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" يہ آيت كريمہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال و افعال اور احوال ميں ان كى پيروى و اقتدا اصل اصيل ہے. اھـ
تفسير ابن كثير ( 3 / 756 ).
اس كى حكمت ميں علماء كرام كے اقوال مختلف اور بہت زيادہ ہيں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس كے معنى ميں علماء كرام كے بہت سے اقوال ہيں: ان ميں سے ميرے پاس بيس سے زيادہ اقوال جمع ہوئے ہيں:
ميں نے ان كى تلخيص كر كے ان ميں سے واہى اور غلط قسم كے اقوال بيان كر ديے ہيں:
قاضى عبدالوہاب مالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس ميں كئى ايك فوائد ذكر كيے گئے ہيں جن ميں سے كئى ايك تو قريب قريب ہيں، اور اكثر صرف فارغ دعوے ہى ہيں. انتہى
ان ميں سے كچھ يہ ہيں:
1 - ايسا اس ليے كيا تا كہ دونوں راستے گواہى ديں، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: جن و انس ميں سے سے وہاں رہنے والے اس كى گواہى ديں.
2 - ايك قول يہ ہے كہ: ان دونوں راستوں ميں گزرنے كى فضيلت يا اس سے تبرك كى برابرى كى جائے.
3 - يہ بھى كہا گيا ہے كہ: عيدگاہ جانے كا راستہ آپ كے دائيں طرف تھا اس ليے واپس دوسرے راستے سے آئے اگر اسى راستے سے آتے تو وہ بائيں جانب ہو جاتا، ليكن اس كى دليل دركار ہے.
4 - ايك قول يہ ہے: دونوں راستوں ميں دينى شعار كےاظہار كے ليے، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: اللہ كے ذكر كا اظہار كرنے كے ليے.
5 - ايك قول يہ ہے: تا كہ منافقين يا يہوديوں كو غيظ و غضب كا شكار كريں.
اور يہ بھى قول ہے: تا كہ انہيں اپنے ساتھ لوگوں كى كثرت دكھائيں، اسے ابن بطال نے راحج قرار ديا ہے.
6 - يہ قول بھى ہے: دونوں گروہوں كے ہتھكنڈوں سے بچاؤ كى خاطر ايسا كيا، ليكن يہ صحيح نہيں لگتا.
7 - ايسا اس ليے كيا تا كہ خوشى و سرور كو عام كريں، يا آپ كے گزرنے اور ديكھنے اور ان سے اپنى ضروريات كى اشياء فتوى وغيرہ يا تعليم كا فائدہ حاصل كريں، اور آپ كى راہنمائى حاصل كريں، اور اقتدا كريں، يا ان پر سلام وغيرہ كريں.
8 - ايك قول يہ بھى ہے: اپنے قريبى رشتہ داروں كى زيارت اور صلہ رحمى كے ليے كيا.
9 - تا كہ اس سے حالت كى تبديلى كى نيك فال ليں كہ بخشش اور رضاو خوشنودى حاصل ہو.
10 - يہ قول بھى ہے: جب جاتے تو صدقہ و خيرات كرتے جاتے، اور جب واپس پلٹتے تو دوسرے راستے سے واپس ہوتے تا كہ سوال كرنے والے كو خالى واپس نہ كريں، يہ بہت ہى ضعيف قول ہے، اور دليل كا محتاج ہے.
11 - يہ بھى كہا گيا ہے: جانے والا راستہ آنے والے راستے كى بنسبت دور تھا، لہذا جانے ميں زيادہ قدم اٹھانے كا اجروثواب حاصل كرنے كے ليے لمبے راستے سے جاتے، اور واپسى ميں چھوٹا راستہ اختيار كرتے تاكہ گھر جلد واپس پہنچ سكيں.
رافعى نے يہى اختيار كيا ہے، اور اس كا تعاقب كرتے ہوئے كہتے ہيں اس كى دليل چاہيے، كيونكہ واپسى ميں بھى قدموں كا اجروثواب لكھا جاتا ہے، جيسا كہ ترمذى وغيرہ ميں ابى بن كعب رضى اللہ تعالى كى حديث سے ثابت ہے.
12 - يہ قول بھى ہے: كيونكہ راستے ميں فرشتے كھڑے ہوتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ دونوں راستوں ميں كھڑے فرشتے گواہى ديں. اھـ
حافظ رحمہ اللہ كى كلام اختصار كے ساتھ ختم ہوئى.
زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے اس كى بعض حكمتيں ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:
زيادہ صحيح يہى ہے كہ ان اور اس كے علاوہ دوسرى حكمتوں كى بنا پر ہى ايسا فعل كرتے تھے، آپ كا فعل حكمت سے خالى نہيں . اھـ
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 449 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر يہ كہا جائے كہ راستہ بدلنے ميں حكمت كيا ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع اور پيروى كرنا.
اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
كسى مومن مرد اور عورت كو كوئى حق نہيں كہ جب اللہ تعالى اور اس كا رسول كوئى فيصلہ كرديں تو اس ميں انہيں اپنے معاملہ كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كرے گا وہ واضح اور صريح گمراہى ميں ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 222 ).
واللہ اعلم .