"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
ہر وقت پانى اور گندگى كے اخراج كى حالت ميں اسے ہميشہ حدث يعنى بے وضوء كا حكم ديا جائيگا، اور يہ استحاضہ اور ہوا اور پيشاب نہ ركنے كى بيمارى كى طرح ہى ہے، اس بيمارى ميں مبتلا شخص ہر نماز كے وقت وضوء كرے اور پھر جتنے نوافل چاہے ادا كرسكتا ہے، اور اس وضوء كے ساتھ وہ قرآن مجيد كو بھى ہاتھ لگا سكتا ہے، يہاں تك كہ دوسرى نماز كا وقت شروع ہو جائے.
ليكن زبانى قرآن مجيد پڑھنے كے ليے وضوء كى شرط نہيں، بے وضوء شخص بھى قرآن مجيد كى زبانى تلاوت كر سكتا ہے، يا پھر وہ كسى حائل وغيرہ مثلا دستانے پہن كر قرآن مجيد پكڑ كر تلاوت كر سكتا ہے.
گندا پانى وغيرہ خارج ہونے كے حكم كے ليے آپ سوال نمبر ( 50404 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
ہمارا يہ قول: وقت شروع ہونے اور وقت داخل ہونے ميں كوئى فرق نہيں، اس سے مراد وہ وقت ہے جس ميں علاقے كے مطابق نماز كا وقت ہونے پر اذان كہى جائے.
اور شريعت اسلاميہ نے نمازوں كے وقت كى ابتدا اور نماز كے وقت كى انتھاء كى تحديد كر دى ہے، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 9940 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.
نماز عصر كا وقت مثلا ظہر كے بعد تين بجے شروع ہوتا ہے، چنانچہ گندا پانى وغيرہ كى بيمارى ميں مبتلا عورت جب ظہر كى نماز ادا كر كے ظہر كى نماز ادا كر لے تو وہ تين بجے يعنى عصر كى اذان ہونے تك نفل پڑھ سكتى اور بيت اللہ كا طواف كر سكتى ہے، اور قرآن مجيد كو چھو سكتى ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس دوران اس بيمارى كے علاوہ كسى اور چيز مثلا پيشاب اور دوسرى وضوء توڑنے والى معروف اشياء سے اس كا وضوء نہ ٹوٹے؛ كيونكہ اس كے ليے صرف اس بيمارى اور اس گندے پانى سے اجتناب ميں مشقت كى بنا پر معاف ہے.
واللہ اعلم .