"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
يہ تو معلوم ہے كہ ماہوارى كى حالت ميں عورت روزہ نہيں ركھے گى تو كيا اس كے ليے رمضان ميں دن كے وقت كھانا پينا جائز ہے، اور كيا اس كے كوئى قواعد و ضوابط ہيں ؟
الحمد للہ.
حائضہ اور نفاس والى عورت جب دن كے وقت حيض اور نفاس سے پاك ہوں جائيں، اور اسى طرح جب مسافر سفر سے واپس پلٹ آئے اور اس كا روزہ نہ ہو، اور مرض كى بنا پر روزہ نہ ركھنے والا مريض صحيح ہو جائے تو ان سب كا دن كے باقى مانندہ وقت ميں كھانے پينے سے ركے رہنے كا كوئى فائدہ نہيں، انہوں نے عذر كى بنا پر روزہ نہيں ركھا تھا، اور انہيں باقى مانندہ وقت ميں كھانے پينے سے روكنے كے ليے كسى شرعى دليل كى ضرورت ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
سوال: ؟
جب حائض يا نفاس والى عورت دن كے دوران پاك ہو جائے تو كيا اس پر كھانے پينے سے ركے رہنا واجب ہو گا؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جب حائض يا نفاس والى عورت دن كے وقت پاك ہو جائے تو اس پر كھانے پينے سے ركنا واجب نہيں، بلكہ وہ كھا پى سكتى ہے، كيونكہ اس كا كھانے پينے سے ركنے ميں كوئى فائدہ نہيں ديتا، كيونكہ اس پر اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا واجب ہے، امام مالك، امام شافعى، كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" جس نے دن كى ابتدا ميں كھايا ہو وہ دن كے آخر ميں كھائے "
يعنى جس كے ليے دن كے شروع ميں روزہ نہ ركھنا اور كھانا پينا جائز ہو اس كے ليے دن كے آخر ميں بھى كھانا پينا جائز ہے" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 59 ).
اور اس كا ضابط اور قاعدہ يہ ہے كہ:
بعض علماء كرام نے ايسے افراد جن كے ليے رمضان كا روزہ نہ ركھنا جائز ہے مثلا مريض اور مسافر اور حائضہ يا نفاس والى عورت كو اعلانيہ طور پر كھانے پينے سے منع كيا ہے، تا كہ جسے ان كے عذر كا علم نہ ہو وہ انہيں دين كے ساتھ سستى برتنے كا الزام متہم نہ كر سكے.
اور دوسرے علماء كرام كہتے ہيں كہ اگر اس كا عذر ظاہر ہو تو اعلانيہ طور پر كھانے ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر اس كا عذر مخفى اور پوشيدہ ہے تو وہ چھپ كر كھائے پيے، اور يہ دوسرا قول ہى زيادہ صحيح ہے.
مرداوى رحمہ اللہ " الانصاف " ميں كہتے ہيں:
" قاضى رحمہ كا قول ہے: رمضان المبارك ميں اعلانيہ اور ظاہرى طور پر كھانے والے كو روكا جائے گا، چاہے وہ كسى عذر كى بنا پر ہى ہو، الفروع ميں كہا ہے:
اس كا ظاہر مطلقا منع ہے، اور ابن عقيل كو كہا گيا: مسافر، مريض اور حاضہ عورت كو ظاہرى طور پر كھانے پينے سے منع كيا جائے گا تا كہ انہيں متہم نہ كيا جائے ؟
تو ان كا كہنا تھا:
اگر تو عذر خفيہ اور پوشيدہ ہو تو اعلانيہ اور ظاہرى طور پركھانے پينے سے منع كيا جائے گا، مثلا ايسا مريض جس كے مرض كى علامت نہ ہو، اور ايسا مسافر جس پر سفر كى علامت نہ ہو" انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 7 / 348 ).
واللہ اعلم .