"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
خاوند ملازمت پر ہو تو بيوى كا اپنے ماموں سے اكيلے ميں ملنے كا حكم كيا ہے، كيونكہ كئى بار ايسا ہو چكا ہے ؟
الحمد للہ.
ماموں اپنى سارى بہنوں كى بيٹيوں اور بھانجى كى بيٹيوں كا بھى محرم ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا محرم عورتوں كے بارہ ميں سورۃ النساء ميں فرمان ہے:
حرام كى گئيں ہيں تم پر تمہارى مائيں اور تمہارى بيٹياں اور تمہارى بہنيں، اور تمہارى پھوپھياں، اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى بيٹياں اور بہن كى بيٹياں اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہے اور تمہارى دودھ شريك بہنيں اور تمہارى ساس اور تمہارى پرورش ميں موجود لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں تمہارى ان بيويوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ كيا ہو تو تم پر كوئى گناہ نہيں ا ور تمہارے صلبى سگے بيٹوں كى بيوياں اور تمہارا دو بہنوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا، ہاں جوگزر چكا سو گزر چكا، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے النساء ( 23 ).
اس ليے ماموں كے ليے اپنى بہن كى بيٹى سے ملاقات اور خلوت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور وہ اس كے ساتھ سفر بھى كر سكتى ہے جب اس ميں كوئى شك و شبہ نہ ہو، اسى طرح اگر وہ ماموں فاسق ہو اور اس كے اخلاق بہتر نہ ہوں اور بھانجى كے ليے امن نہ ركھتا ہو تو ايسا نہيں كيا جا سكتا، اور اگر اس ميں شك پايا جائے تو خاوند كى غير موجودگى ميں ملاقات كرنے اور اس سے خلوت كرنے سے بھى منع كيا جائيگا.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 21953 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور بعض سلف صالحين مثلا عكرمہ اور شعبى رحمہ اللہ كا يہ كہنا ہے كہ ماموں اور چچا كے ليے اگر بہن اور بھائى كى بيٹى سے شادى كرنا حرام ہے ليكن اس كے ليے اپنى زيبائش ان كے آگے ظاہر كرنا جائز نہيں، بلكہ وہ ان كے سامنے پردہ كريگى، اور انہوں نے اس كى دو دليليں دى ہيں:
پہلى دليل:
ماموں اور چچا سورۃ الاحزاب كى اس آيت ميں مذكور نہيں جس ميں عورت كے ليے محرم كے سامنے زينت كى اشيا ظاہر كرنے كا حكم ديا گيا ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ان عورتوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ اپنے باپوں اور اپنے بيٹوں اور بھائيوں اور بھتيجوں اور بھانجوں اور اپنى ( ميل جول كى ) عورتوں اور ملكيت كے ماتحتوں ( لونڈى اور غلام ) كے سامنے ہوں عورتوں اللہ سے ڈرتى رہو اللہ تعالى يقينا ہر چيز پر شاہد ہے الاحزاب ( 55 ).
چنانچہ يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے ماموں اور چچا كا ذكر نہيں كيا.
دوسرى دليل:
ان كا كہنا ہے: اور اس ليے بھى كہ ماموں اور چچا اپنے بيٹوں كے سامنے اس عورت كے اوصاف بيان كر سكتے ہيں.
اور عام اہل علم كہتے ہيں كہ ماموں اور چچا ان محرم مردوں ميں شامل ہيں جن كے سامنے عورت كے ليے اپنى زينت والى اشياء ظاہر كرنى مباح ہيں، اور انہوں نے آيت ميں ماموں اور چچا كا ذكر نہ ہونے كا جواب ديتے ہوئے كہا ہے كہ:
1 ـ ان دونوں كو اس ليے آيت ميں ذكر نہيں كيا گيا كہ يہ والدين كے مرتبہ پر ہيں، اور اسى ليے اللہ تعالى نے چچا كو باپ كہا ہے فرمان بارى تعالى ہے:
كيا يعقوت عليہ السلام كى موت كے وقت تم موجود تھے ؟ جب انہوں نے اپنى اولاد كو كہا كہ تم ميرے بعد كس كى عبادت كرو گے ؟ تو سب نے جواب ديا كہ آپ كے معبود كى اور آپ كے آباء و اجداد ابراہيم عليہ السلام اور اسماعيل عليہ السلام اور اسحاق عليہ السلام كے معبود كى جو معبود ايك ہى ہے اور ہم اسى كے فرمانبردار رہيں گے البقرۃ ( 133 ).
يہ سب كو معلوم ہے كہ اسماعيل عليہ السلام يقوب عليہ السلام كے چچا ہيں.
2 ـ يا پھر ان كا ذكر اس ليے نہيں كيا گيا كہ بھائى كے بيٹے اور بہن كے بيٹے كا ذكر كر ديا گيا، چنانچہ چچا اور ماموں اس حكم ميں ان دونوں سے اولى ہيں.
سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان عورتوں پر كوئى گناہ نہيں .
يعنى ان سے پردہ نہ كرنے ميں ان پر كوئى گناہ نہيں، اور اس ميں چچے اور ماموں كا ذكر اس ليے نہيں كيا گيا كہ جب يہ عورتيں ان سے پردہ نہيں كرتى جن كى يہ پھوپھياں اور خالہ لگتى ہيں يعنى اپنے بھائى اور اپنى بہن كے بيٹوں سے كيونكہ يہ ان پر رفعت و بلندى ركھتى ہيں تو پھر ان كا اپنے چچا اور اپنے ماموں سے بالاولى پردہ نہ كرنا ثابت ہوا " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 788 ).
اور انہوں نے جو يہ علت بيان كى ہے كہ ( ہو سكتا ہے چچا اور ماموں اپنے بيٹوں كے سامنے ان كے اوصاف بيان كريں ) اس كا جواب جمہور نے يہ ديا ہے كہ يہ تعليل اور علت كمزور اور ضعيف ہے، كيونكہ اگر يہ كہا جائے تو پھر يہ لازم آتا ہے كہ عورت كے ليے اپنى زينت والى اشياء كسى بھى عورت كے سامنے ظاہر كرنا جائز نہيں كيونكہ وہ اپنے بيٹوں كے سامنے اس كے اوصاف بيان كر سكتى ہے !
جمہور كے قول عورت كے ليے اپنے چچا اور ماموں كے سامنے زينت والى اشياء ظاہر كرنا جائز ہونے اور ان كا اس كے پاس جانے اور ان سے خلوت كرنے كى دليل صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث بھى ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ پردہ نازل ہونے كے بعد ابو القعيس كے بھائى افلح نے ميرے پاس آنے كى اجازت طلب كى تو ميں نے كہا: ميں اس وقت تك اجازت نہيں دونگى جب اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں كيونكہ ابو القعيس كے بھائى نے تو مجھےدودھ نہيں پلايا بلكہ مجھے تو دودھ ابو القعيس كى بيوى نے پلايا ہے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس آئے تو ميں آپ سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ابو القعيس كا بھائى افلح آيا اور ميرے پاس اندر آنے كى اجازت طلب كى تو ميں نے اسے اپنے پاس آنے كى اجازت دينے سے انكار كر ديا حتى كہ آپ سے اجازت نہ لے لوں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم نے اسے اجازت كيوں نہ دى اس ميں كيا چيز مانع تھى ؟ وہ تو تيرا چچا ہے !
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مرد نے تو مجھے دودھ نہيں پلايا بلكہ مجھے تو ابو القعيس كى بيوى نے دودھ پلايا تھا !
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اجازت دے دو وہ تمہارا چچا ہے تيرا ہاتھ خاك آلودہ ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4796 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1445 ).
اس ليے جب رضاعى چچا كے ليے عورت كے پاس آنا اور اس سے خلوت كرنا جائز ہے تو پھر نسب كے چچا كے ليے تو بالاولى جائز ہو گا، اور ماموں بھى اسى طرح ہے.
ديكھيں: تفسير القاسمى ( 13 / 298 ).
واللہ اعلم .