"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں ايك مسلمان عورت ہوں ميرى عمر اكتيس برس ہے، ميں نے اسلام كى اساسيات تو حاصل كى ہيں ليكن عموما يورپى اورمغربى طريقہ كے ساتھ ميں نے ملك سے باہر يورپى يونيورسٹى ميں تعليم حاصل كى اور اس كے بعد انٹرنيشنل كمپنى ميں ملازمت كى جو معروف طريقہ! Career path پر كام كرتى ہے.
ميرے والدين بوڑھے ہو چكے ہيں، اور زندگى كے اسى طريقہ پرابھارنے كے ساتھ ميرى تربيت ہوئى ہے، اس كے علاوہ ميں اپنے خاندان كى كفالت كرتى ہوں كيونكہ وہ دونوں ( ميرے والد اور والدہ ) اس وقت كام نہيں كرتے، اور ميں اكيلى ايك يورپى ملك ميں رہتى ہوں، جس ميں نہ تو عرب ہيں اور نہ ہى مسلمان.
اس ليے كہ ميرى پرورش اسلامى ہوئى ہے، ميں اپنے ارد گرد معاشرے ميں بالكل الگ تھلگ رہتى ہوں، لہذا ميں نہ تو فنگشنوں ميں شريك ہونے كى رغبت ركھتى ہوں، اور نہ ہى كلبوں ميں جانے كى، اور نہ ہى مردوں كے ساتھ ميٹنگوں ميں جانے كى .... الخ
ميرے سامنے دو راستے ہيں: يا تو ميں اپنے گھر واپس آجاؤں اور اپنے والدين كے سايہ شفقت ميں زندگى بسر كروں، اور كوئى بھى كام تلاش كروں جو مجھے مشغول ركھے، اور اگر ميرے نصيب ميں ہو تو كوئى شخص بھى مل جائے اور ميں شادى كرلوں، اس كا معنى يہ ہوا كہ كچھ محدود مدت تك ميرى آمدنى ميں كمى ہو جائے گى اور مجھے اس كى قربانى دينا ہوگى، جو ميرے خاندان اور گھر والوں پر منفى اثرات مرتب كرے گى، اور اس كے ساتھ ساتھ ميں جس كمپنى ميں ملازمت كر رہى ہوں وہاں سے اپنے عہدہ كى بھى قربانى دينا ہو گى.
يا پھر دوسرا راستہ اور اختيار يہ ہے كہ:
ملازمت جارى ركھوں اور اس اميد پر زندگى بسر كرتى رہوں كہ ايك نہ ايك دن مجھے ايسا مسلمان شخص ملے گا جو اسلامى زندگى بسر كرنے ميں ميرى مدد و معاونت كرے گا.
اس موضوع كے متعلق اسلام كى رائے كيا ہے ؟
الحمد للہ.
1 - سوال كرنے والى بہن كى جانب سے تجويز كردہ دونوں اختيار اور راستے ايسے ہيں جو صحيح اور غلط، اور حرام اور حلال كے مابين گھومتے ہيں.
اس ليے ہمارے ليے ممكن نہيں كہ ہم سوال كرنے والى بہن يہى مشورہ ديتے ہيں كہ وہ اپنا راس المال ( يعنى اصل مال ) جو كہ اس كا دين اور عفت و عصمت ہے كى حفاظت كرے، اور اپنے گھر والوں كے درميان زندگى بسر كر كے اپنے آپ كى حفاظت كرے، تو اس طرح وہ ان لوگوں كے درميان ہو گى جو اس كى حفاظت اور بچاؤ كرنے والے ہيں.
اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كےليے كوئى شرعى كام اور صالح اور نيك خاوند ميسر اور مہيا كر دے، اور ہم اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے ساتھ خوشخبرى ديتے ہيں كہ اسى ميں بہترى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كے عوض ميں اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " حجاب المراۃ المسلمۃ" صفحہ نمبر ( 49 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 - كتنے ہى ايسے بھائى اور بہنيں ہيں جو ايسے اعمال كرتے اور ان معاشروں اور ماحول ميں بستے تھے اور وہاں كمائى بھى كرتے تھے، ليكن جيسے ہى انہيں علم ہوا كہ اس ميں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت ہے تو انہوں نے يہ سب كچھ ترك كر ديا، حتى كہ اللہ تعالى نے ان پر روزى كے بہت سے دروازے كھول ديے، اور انہيں وسيع رزق عطا فرمايا، اور ان كے دلوں ميں اس سے بھى اچھى اور احسن راہنمائى كى جس پر وہ تھے.
ہم سوال كرنے والى بہن كو اس كے والدين كے متعلق يہ نصيحت كرنا چاہتے ہيں كہ اس كا اپنے والدين كے ساتھ رہنا، اور ان كى ديكھ بھال كرنا ان سے جدائى اور فراق اختيار كرنے سے بہت زيادہ بہتر ہے، اور اسے ان غير شرعى كاموں كا اہتمام نہيں كرنا چاہيے جو اس كے والدين اس سے چاہتے ہيں، كيونكہ عام لوگوں كو دنيا كى حرص ہوتى ہے، لكن ان كے دلوں ميں وہ شرعى مانع نہيں آتے جو ان كى بيٹيوں اور اولاد كے كاموں كو گھيرے ہوئے ہيں.
3 - دين كے بدلے اس فانى دنيا كو حاصل كرنے كوشش كرنا صحيح نہيں، نہ تو ہم اسے اپنى بہنوں اور بيٹيوں كے ليے چاہتے ہيں، اور نہ ہى سوال كرنے والى بہن كے ليے.
4 - آپ يہ نہ سوچيں كہ جس كمپنى ميں آپ ملازمت كر رہى ہے وہ انٹرنيشنل كمپنى ہے، اور اس ميں تنخواہ اور معاشى زندگى بہت بہتر اور اچھى ہے، كيونكہ اگر يہ اللہ تعالى كى ناراضگى ميں ہو تو ان اشياء كى كوئى قدر و قيمت نہيں، صرف آپ كے ليے يہى كافى ہے كہ آپ كے ساتھ اجنبى مرد كام كرتے ہيں، چہ جائيكہ ايسا ملك جس ميں مسلمان نہيں بستے، پھر ہو سكتا ہے آپ كفار كے ملك ميں سفر بھى غير محرم كے كرتى ہوں، اور ان كفار كے مابين رہتى ہوں، اور گھر ميں اكيلى رہائش ركھتى ہوں، جس ميں دين اور نفس اور عزت كے ليے خطرہ ہے، جو كسى بھى عقل مند كے ليے مخفى نہيں.
نصوص شرعيہ عورتوں اور مردوں كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، اور اسى طرح بغير محرم كے سفر كرنا بھى حرام ہے، اور كفار كے درميان رہائش ركھنا بھى جائز نہيں.
5 - اور آپ نے جو عليحدگى كا ذكر كيا ہے كہ آپ ان سب سے الگ تھلگ رہتى ہيں، ہو سكتا ہے دھوكہ دينے والى اشياء كى كثرت، اور كسى معاون اور نصيحت كرنے والے كے نہ ہونے كى بنا پر يہ عليحدگى زيادہ دير قائم نہ رہ سكے.
كيونكہ شر اور برائى كى راہ ايك قدم سے شروع ہوتى ہے، اور جب انسان اس ميں ايك قدم ركھ كر چلنا شروع كردے تو پھر اس كے اپنے آپ اور آخرت كے متعلق سوچنا مشكل ہو جاتا ہے.
آپ پر اللہ تعالى كا فضل اور احسان ہے كہ آپ نصيحت اور شرعى حكم معلوم كرنا چاہتى ہيں، لھذا آپ دنيا پر افسوس نہ كريں، قناعت كرنے والے شخص كو قليل چيز بھى كافى ہوتى ہے، ليكن طمع اور لالچ ہى ايك ايسى بيمارى ہے جو ہلاك كر ڈالتى ہے، اور پھر سوچ وبچار كے ليے عقل بھى باقى نہيں رہتى، اور نہ ہى سوال كرنے ميں ورع باقى بچتا ہے.
6 - شرعى كام تلاش كرنے ميں آپ كے ليے كوئى مانع نہيں، اور خاص كر بعض كمپنياں تو ايسى ہى جو لوگوں كو گھر بيٹھے ہى ملازمت اور كام ديتى ہيں، كہ وہ انٹرنيٹ كے ذريعہ ہى كام كرتے رہيں، اور مسلمان عورتوں كےليے يہ ايك شرعى بدل ہو سكتا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نفع مند كام دے، اور آپ كے دين كى حفاظت فرمائے، وہ اسے كرنے والا اور اس پر قادر ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .